Ibrahim • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَسَكَنتُمْ فِى مَسَٰكِنِ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ ٱلْأَمْثَالَ ﴾
“And yet, you dwelt in the dwelling-places of those who had sinned against their own selves [before your time], and it was made obvious to you how We had dealt with them: for We have set forth unto you many a parable [of sin, resurrection and divine retribution]."”
آدمی کا حال یہ ہے کہ ایک دن پہلے تک بھی وہ اپنے انجام کا احساس نہیں کرتا۔ اس کو اگر کوئی قوت یا حیثیت حاصل ہو تو وہ اس طرح اکڑتاہے گویا کہ اس کی حیثیت کبھی اس سے چھننے والی نہیں۔ وہ خدا کی دعوت کو ٹھکراتا ہے اور بھول جاتاہے کہ وہ جن چیزوں کے بل پر اس کو ٹھکرا رہا ہے وہ سب خدا ہی کی دی ہوئی ہیں۔ اس کے سامنے دلائل آتے ہیں مگر وہ ان پر دھیان نہیں دیتا۔ ماضی کے سرکشوں کا انجام اس کے سامنے ہوتاہے مگر وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ صرف دوسروں کے لیے تھا۔ خود اس کے اپنے لیے کبھی ایسا ہونے والا نہیں۔ موجودہ دنیا میں جن لوگوں کو مواقع حاصل ہیں وہ حق کو نظر انداز کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ مگر موت کے بعد جب وہ اپنی سرکشی کا انجام دیکھیں گے تو ان کو اپنے ماضی پر اس قدر شرم آئے گی کہ وہ چاہیں گے کہ اگر انھیںدوبارہ مہلت ملے تو وہ موجودہ دنیا میںآکر خوداپنی تردید کریں اور اس چیز کو مان لیں جس کا اس سے پہلے انھوں نے فخریہ طورپر انکار کردیا تھا۔ حق کی مخالفت خدا کی مخالفت ہے۔ جس حق کے ساتھ خدا ہو اس کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ ناکام رہتے ہیں، خواہ وہ اس کے خلاف اتنی بڑی تیاریوں کے ساتھ آئے ہوں جو پہاڑ کو ہلانے کے لیے بھی کافی ثابت ہو۔