Ibrahim • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يَوْمَ تُبَدَّلُ ٱلْأَرْضُ غَيْرَ ٱلْأَرْضِ وَٱلسَّمَٰوَٰتُ ۖ وَبَرَزُوا۟ لِلَّهِ ٱلْوَٰحِدِ ٱلْقَهَّارِ ﴾
“[His promise will be fulfilled] on the Day when the earth shall be changed into another earth, as shall be the heavens and when [all men] shall appear before God, the One who holds absolute sway over all that exists.”
پیغمبر خداکے دین کی گواہی اپنی کامل صورت میں دیتاہے۔ اس لیے پیغمبر کے ساتھ خدا کی نصرت بھی اپنی کامل صورت میں آتی ہے۔ بعد کے پیرو جتنا جتنا پیغمبر کے نمونہ پر پورے اتریں گے اتنا اتنا وہ خدا کی نصرت کے مستحق ہوتے چلے جائیں گے۔ آج انسان زمین پر ایسا محسوس کرتاہے جیسے وہ خشکی اور تری کا مالک ہو۔ وہ فضاؤں اور خلاؤں کو کنٹرول کرسکتاہے۔ وہ اختیار رکھتاہے کہ یہاں کے وسائل کو جس طرح چاہے استعمال کرے اور جس طرح چاہے استعمال نہ کرے۔ مگر یہ سب کچھ صرف اس لیے ہے کہ خدانے امتحان کی مدت تک زمین وآسمان کو انسان کے لیے مسخر کررکھا ہے۔ امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی حالات یکسر بدل جائیں گے۔ اس کے بعد زمین بھی دوسری زمین ہوگی اور آسمان بھی دوسرا آسمان۔ انسان اچانک اپنے کو ایک اور ہی دنیا میں پائے گا۔ جہاں آدمی اپنے کو حکمراں سمجھتا تھا وہاں ساری حکومت صرف خداکے لیے ہوچکی ہوگی۔ جہاں ہر چیز اس کے حکم کے تابع تھی وہاں ہر چیز اس کی تابع داری کرنا چھوڑ دے گی۔ موجودہ دنیا میں جولوگ بڑے بنے ہوئے تھے وہ اس دن بے بس مجرم کے روپ میں نظر آئيں گے۔ جو لباس آج جسم کو زینت ديتا ہے وہ اس دن ایسا ہوجائے گا جیسے جسم کے اوپر تارکول پھیر دی گئی ہو۔ پُر رونق چہرے اس دن آگ میں جھلسے ہوئے ہوں گے۔اور یہ سب کچھ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جو دنیا میں خدا کا بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوئے۔ جنھوںنے خدا کی طرف سے ہونے والے اعلان کو نظر انداز کیا۔ حقیقت کا حقیقت ہونا کافی نہیں ہے کہ آدمی اس کو مان لے۔ حقیقت کو ماننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خود بھی اس کو ماننا چاہے۔ جو شخص حقیقت کے معاملہ میں سنجیدہ ہو، جو خالی الذہن ہو کر اس کو سنے وہی حقیقت کو سمجھے گا، وہی حقیقت کا صحیح استقبال کرنے میں کامیاب ہوگا۔