Ibrahim • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِـَٔايَٰتِنَآ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّىٰمِ ٱللَّهِ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَٰتٍۢ لِّكُلِّ صَبَّارٍۢ شَكُورٍۢ ﴾
“And [thus], indeed, have We sent forth Moses with Our messages [and this Our command]: "Lead thy people out of the depths of darkness into the light, and remind them of the Days of God!" Verily, in this [reminder] there are messages indeed for all who are wholly patient in adversity and deeply grateful [to God].”
’’آیات اللہ‘‘ سے مرادکائنات کی وہ نشانیاں ہیں جو خدا کی بات کو برحق ثابت کرتی ہیں۔ ’’ایام اللہ‘‘ سے مراد تاریخ کے وہ یادگار واقعات ہیں جب کہ خدا کا فیصلہ ظاہر ہوا اور خدا کی خصوصی مدد سے حق نے باطل کے اوپر فتح پائی۔ ایک اگر کائناتی دلیل ہے تو دوسری تاریخی دلیل۔ مگرعجیب بات ہے کہ یہی دونوں چیزیں ہماری دنیا میں سب سے زیادہ غیر موجود نظر آتی ہیں۔ ٓآیات اللہ کو غلط تشریح و تعبیر کے پردہ میں چھپا دیاگیا ہے اور ایام اللہ کایہ حال ہے کہ تاریخ نگاری کا کام جن لوگوں کے ہاتھ میں تھا انھوںنے ایام الانسان تو خوب قلم بند كيے مگر ایام اللہ ان کی کتابوں میں غیر مذکور رہ گئے۔ ایسی حالت میں کسی بندہ خدا کے لیے باطل کے اندھیرے سے نکلنے کی صورت یہ ہے کہ وہ صبر اور شکر کا ثبوت دے۔ حق کے اعتراف کی واحد قیمت اپنی بے اعترافی ہے۔ حق کو پانے کے لیے اپنے آپ کو کھونا پڑتا ہے۔ اور یہ چیز صبر کے بغیر کسی کو حاصل نہیں ہوتی۔ پھر حق کا ادراک آدمی کو یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات میں جو تقسیم ہے وہ منعم اور منعم علیہ کی ہے۔ خدا دینے والا ہے اور انسان پانے والا۔ اس حقیقتِ واقعہ کی دریافت کے بعد آدمی کے اندر جو صحیح جذبہ پیدا ہونا چاہیے اسی کا نام شکر ہے۔ گویا حقیقت تک پہنچنے کے لیے آدمی کو صبر کا ثبوت دینا پڑتا ہے اور حقیقت کو اپنے اندر اتارنے کے لیے شکر کا۔