Ibrahim • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَؤُا۟ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍۢ وَعَادٍۢ وَثَمُودَ ۛ وَٱلَّذِينَ مِنۢ بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا ٱللَّهُ ۚ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَٰتِ فَرَدُّوٓا۟ أَيْدِيَهُمْ فِىٓ أَفْوَٰهِهِمْ وَقَالُوٓا۟ إِنَّا كَفَرْنَا بِمَآ أُرْسِلْتُم بِهِۦ وَإِنَّا لَفِى شَكٍّۢ مِّمَّا تَدْعُونَنَآ إِلَيْهِ مُرِيبٍۢ ﴾
“HAVE THE STORIES of those [deniers of the truth] who lived before you never yet come within your ken - [the stories of] the people of Noah, and of [the tribes of] `Ad and Thamud, and of those who came after them? None knows them [now] save God. There came unto them their apostles with all evidence of the truth -but they covered their mouths with their hands and answered: "Behold, we refuse to regard as true the message with which you [claim to] have been entrusted; and, behold, we are in grave doubt, amounting to suspicion, about [the meaning of] your call to us!"”
خدا کے جتنے رسول مختلف قوموں میںآئے سب کے ساتھ ایک ہی قصہ پیش آیا۔ ہر قوم نے اپنے پیغمبروں کی مخالفت کی۔ ہر جگہ ان کا منھ بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی وجہ ان کا ’’شک‘‘ تھا۔ یہ شک اس لیے تھاکہ ان کے سامنے ایک طرف ان کا آبائی دین تھا جس کی پشت پر اکابر اور اعاظم کے نام تھے۔ دوسری طرف پیغمبر کا دین تھا ،جو بظاہر ایک معمولی انسان کے ذریعہ پیش کیا جارہا تھا۔ دلائل کا زور پیغمبر کے دین کے ساتھ نظر آتا تھا مگر تاریخی عظمت اورعوامی بھیڑ آبائی دین کے ساتھ دکھائی دیتی تھی۔ پیغمبر کے مخاطبین کا یہ حال ہوا کہ وہ دلائل کو رد کرنے کی قوت اپنے اندر نہ پاتے تھے۔ اور یہ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اعاظم اوراکابر کو کس طرح غلط سمجھ لیں۔ اس دو طرفہ صورت حال نے انھیں شک میں مبتلا کردیا۔ عملاً اگر چہ وہ آبائی دین کے ساتھ وابستہ رہے مگر اپنے قلب ودماغ کو شک سے آزاد بھی نہ کرسکے۔