Al-Hijr • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ مَا نُنَزِّلُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةَ إِلَّا بِٱلْحَقِّ وَمَا كَانُوٓا۟ إِذًۭا مُّنظَرِينَ ﴾
“[Yet] We never send down angels otherwise than in accordance with the [demands of] truth; and [were the angels to appear now,] lo! they [who reject this divine writ] would have no further respite!”
پیغمبر کے مخاطبین نے پیغمبر کے اوپر دیوانگی کا شبہ کیا۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی وجہ پیغمبر کی دعوت تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ ’’میںخدا کا نمائندہ ہوں۔ جو شخص میری بات مانے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو شخص نہیں مانے گا وہ ناکام ہو کر رہ جائے گا‘‘۔مگر یہ مخاطبین عملاً جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ اس کے برعکس تھا۔ ان کا اپنا یہ حا ل تھا کہ ان کو رائج الوقت نظام میں سرداری اور پیشوائی کا مقام حاصل تھا۔ دوسری طرف پیغمبر ایک غیر رواجی دین کا داعی ہونے کی وجہ سے مروجہ نظام میں بے حیثیت اور اجنبی بنا ہوا تھا۔ اس فرق کی بنا پر مخاطبین کو یہ کہنے کی جرأت ہوئی کہ تم ہم کو دیوانہ معلوم ہوتے ہو۔ ہر قسم کی دنیوی خوبیاںتو خدا نے ہم کو دے رکھی ہیں اور تم کہتے ہو کہ کامیابی تمھارے لیے ہے اور تمھارا ساتھ دینے والوں کے لیے۔مگر یہ ان کے زاویۂ نظر کا فرق تھا ۔ وہ اپنی چیزوں کو ’’انعام‘‘ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ حالاں کہ یہ تمام چیزیں صرف ’’آزمائش‘‘ کا سامان ہیں جو موجودہ دنیا میں کسی کو وقتی طورپر دی جاتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ تمھارے دعوے کے مطابق تمھارے پاس خدا کے فرشتے آتے ہیں تو یہ فرشتے ہمیں کیوں نہیں دکھائی دیتے۔ یہ بھی زاویۂ نظر کے فرق کی بنا پر تھا۔ پیغمبر کے پاس جو فرشتہ آتا ہے وہ وحی کا فرشتہ ہوتا ہے جو خدا کا کلام پیغمبر تک پہنچاتاہے۔ اس کے علاوہ خداکے وہ فرشتے بھی ہیں جو اس لیے آتے ہیں کہ وہ حقیقت کو لوگوں کے سامنے بے نقاب کردیں ۔ مگر وہ دعوت کی تکمیل کے بعد آتے ہیں اورجب وہ آتے ہیں تو یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ ایمان کی طرف بلانے کا۔