Al-Hijr • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَمَا خَلَقْنَا ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ إِلَّا بِٱلْحَقِّ ۗ وَإِنَّ ٱلسَّاعَةَ لَءَاتِيَةٌۭ ۖ فَٱصْفَحِ ٱلصَّفْحَ ٱلْجَمِيلَ ﴾
“AND [remember:] We have not created the heavens and the earth and all that is between them without [an inner] truth; but, behold, the Hour [when this will become clear to all] is indeed yet to come. Hence, forgive [men's failings] with fair forbearance:”
زمین وآسمان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ پورا نظام حد درجہ حکمت کے ساتھ بنایا گیا ہے۔ یہاں ہر چیز ٹھیک ویسی ہی ہے جیسا کہ اسے ہونا چاہیے۔ اس پورے نظام میں صرف انسان ہے جو خلافِ حقیقت رویہ اختیار کرتاہے۔ انسان اور کائنات میں یہ تضاد تقاضا کرتاہے کہ وہ ختم ہو۔ قیامت کا عقیدہ اس اعتبار سے عین عقلی اور منطقی عقیدہ ہے۔ کیوں کہ قیامت کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہے جو اس تضاد کو ختم کرنے والی ہو۔ دعوت الی اللہ کے عمل کا ایک اہم جزء ’’اعراض‘‘ ہے۔ یعنی مخاطب جب غیر متعلق بحث اور جھگڑا چھیڑے تو اس کے ساتھ مشغول ہونے کے بجائے اس سے الگ ہوجانا۔ اعراض کا اصول اختیار کيے بغیر دعوت کا کام موثر طورپر نہیں کیا جاسکتا۔ اعراض کی مصلحت یہ ہے کہ مدعو ہمیشہ داعی سے غیر متعلق جھگڑے چھیڑتا ہے۔ اب اگر داعی یہ کرے کہ ہر ایسے موقع پر مدعو سے لڑ جائے تو غیر متعلق امور پر ٹکراؤ تو خوب ہوگا مگر اصل دعوتی کام بغیر ہوئے پڑا رہ جائے گا۔