slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 88 من سورة سُورَةُ الحِجۡرِ

Al-Hijr • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِۦٓ أَزْوَٰجًۭا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَٱخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ ﴾

“[so] turn, not thine eyes [longingly] towards the worldly benefits which We have granted unto some of those [that deny the truth]. And neither grieve over those [who refuse to heed thee], but spread the wings of thy tenderness over the believers,”

📝 التفسير:

سات مثانی سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ سورہ فاتحہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے اور بقیہ قرآن اس کی تفصیل۔ یہ قرآن بلا شبہ زمین و آسمان کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس کا ہدایت نامہ ہونا اس کے ماننے والوں کے لیے آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اور اس کا آخری کتاب ہونا لازم ٹھہراتا ہے کہ ضرور اس کو اپنے مخالفین کے اوپر غلبہ حاصل ہو۔ کیوں کہ اگر غلبہ نہ ہو تو وہ آخری کتاب کی حیثیت سے باقی نہیں رہ سکتی۔ داعی کوچاہیے کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو سوچ کر وہ مایوس نہ ہو۔ بلکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو دیکھ کر مطمئن ہو اور ان کی دل جوئی اور تربیت میں پوری توجہ صرف کرے۔ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے مراد تورات کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔ یہود نے اپنی آسمانی کتاب کو عملاً دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا اس کی جو تعلیم ان کی خواہشات کے خلاف ہوتی اس کو وہ چھوڑ دیتے اور جو ان کی خواہشوں کے مطابق ہوتی اس کو لے لیتے۔ پہلی قسم کی آیتیں ان کے یہاں صرف تقدس کے خانہ میں پڑی رہتیں۔ ان پر وہ نہ زیادہ دھیان دیتے اور نہ ان کو زیادہ پھیلاتے۔ البتہ دوسری قسم کی آیتوں کی وہ خوب اشاعت کرتے۔ بالفاظ دیگر انھوںنے کتاب خداوندی کو اپنے مفادات کے تابع بنا لیا تھا، نہ کہ خدائی احکام کے تابع۔ کسی چیز کو پانے کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے اس کے اجزاء کو پانا۔ دوسرا ہے ا س کو اس کی کلی حیثیت میں پانا۔ درخت کو جب آدمی اس کی کلی حیثیت میں پہچان لے تو وہ کہتا ہے کہ یہ درخت ہے۔ لیکن اگر وہ اس کو اس کی کلی حیثیت میں نہ پہچانے تو وہ تنہ اور شاخ اور پتی اور پھول اور پھل کا ذکر کرے گا۔ وہ اس واحد لفظ کو نہ بول سکے گا جس کے بولنے کے بعد اس کے تمام متفرق اجزاء ایک اصل میں جڑ کر وحدت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہی معاملہ خدا کی کتاب کا بھی ہے۔ خدا کی کتاب میں بہت سے متفرق احکام ہیں اسی کے ساتھ اس کا ایک کلی اور مرکزی نکتہ ہے۔ جو لوگ خدا کی کتاب میں گم ہوں وہ خدا کی کتاب کو اس کی کلی حیثیت میں پالیں گے ۔ اس کے برعکس، جو لوگ خود اپنے آپ میں گم ہوں وہ خدا کی کتا ب کو دیکھتے ہیں تو خدا کی کتاب ان کو بس مختلف اور متفرق احکام کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ ان میں سے اپنے ذوق اورحالات کے مطابق کوئی جزء لے لیتے ہیں اور اس پر اس طرح زور صرف کرنے لگتے ہیں جیسے کہ بس وہی ایک چیز سب کچھ ہو۔ درخت کی جڑ میں پانی دینے سے پورے درخت میں پانی پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح جب خدا کی کتاب کے کلی اور مرکزی پہلو کو زندہ کیا جائے تو ا س کے زندہ ہوتے ہی بقیہ تمام اجزاء لازمی طورپر زندہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر کسی ایک جزء کو لے کر اس پر زور دیا جائے تو اس کی ظاہری دھوم تو مچ سکتی ہے مگر اس سے دین کا حقیقی احیاء نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اس کو زندگی مرکزی پہلو کے زندہ ہونے سے ملتی ہے اور وہ سرے سے زندہ ہی نہیںہوا۔