An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ أَتَىٰٓ أَمْرُ ٱللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ وَتَعَٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴾
“GOD'S JUDGMENT is [bound to] come: do not, therefore, call for its speedy advent! Limitless is He in His glory and sublimely exalted above anything to which men may ascribe a share in His divinity!”
دین کی حقیقت یہ ہے کہ انسان خدا کی ہستی اور کائنات میں اس کی کار فرمائی کو اس طرح جان لے کہ ایک خدا کی ذات ہی اس کو سب کچھ نظر آنے لگے۔ اسی سے وہ ڈرے اور اسی سے وہ ہر قسم کی امید رکھے۔ ایک خدا اس کے قلب و دماغ کی تمام توجہات کا مرکز بن جائے۔ یہی اللہ کو الٰہ بنانا اور اس کی عبادت کرنا ہے۔ انسانوں کے اندر یہی کیفیت پیدا کرنے کے لیے تمام پیغمبر اس دنیا میں آئے ۔ جو لوگ اس عبدیت کا ثبوت دیں وہ فیصلہ کے دن کامیاب ٹھہریں گے۔ جو لوگ اس کے خلاف چلیں وہ فیصلہ کے دن نامراد ہوجائیںگے۔ یہ فیصلہ عام انسانوں کے لیے قیامت میں ہوگا۔ مگر پیغمبر کے مخاطبین کے لیے وہ اسی دنیاسے شروع ہوجاتاہے۔ کائنات میں مکمل وحدت ہے اور اسی کے ساتھ مکمل مقصدیت بھی۔ کائنات کی وحدت اس سے انکار کرتی ہے کہ یہاں ایک خدا کے سوا کسی اورکو مرکز توجہ بنانا کسی کے لیے جا ئز ہو۔ اور اس کی مقصدیت تقاضا کرتی ہے کہ اس کا خاتمہ ایک بامعنیٰ انجام پر ہونا چاہیے، نہ کہ بے معنی انجام پر۔ گویا کائنات کا نظام بیک وقت توحید کی دلیل بھی فراہم کرتا ہے اور آخرت کی دلیل بھی۔