An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِنَّ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ لَا يَهْدِيهِمُ ٱللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾
“Verily, as for those who will not believe in God's messages, God does not guide them aright; and grievous suffering will be their lot [in the life to come].”
مکہ میں کچھ عجمی غلام تھے۔ ان کے نام تفسیر کی کتابوں میںحیر، یسار، عائش، یعیش وغیرہ آئے ہیں۔ اس ضمن میں سلمان فارسی کا نام بھی لیا گیا ہے جو بعد کو مسلمان ہوگئے۔ یہ غلام یا یہودی تھے یا نصرانی۔ اس بنا پر وہ قدیم آسمانی مذاہب، یہودیت اور نصرانیت کے بارے میں معلومات رکھتے تھے۔ ان میں سے کسی کی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ اس طرح کی ملاقاتوں کو بنیاد بنا کر قریش کے لیڈروں نے کہا کہ ’’یہی عجمی لوگ محمد کو کچھ باتیں بتا دیتے ہیں اور وہ ان کو خدائی کلام بتا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں‘‘۔ یہ مضحکہ خیز بات انھوں نے کیوں کہی۔ اس کی وجہ وہی عام برائی ہے جو ہر زمانہ میں اور ہمیشہ دنیا میں پائی گئی ہے۔وہ ہے— اپنے ہم عصر کو میرٹ کی سطح پر نہ پہچاننا۔ قریش کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک معاصر شخصیت تھے، اس لیے وہ آپ کو پہچاننے اور آپ کی قدر کرنے میں ناکام رہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ جو لوگ معاصرانہ نفسیات کے فتنہ میں مبتلا ہوں وہ کبھی حق کو قبول کرنے کی توفیق نہیں پاتے۔ وہ حق کو مان لینے کے بجائے یہ کرتے ہیں کہ حق کے علم بردار کے خلاف جھوٹی باتیں گھڑتے رہتے ہیں۔ وہ بڑی بڑی حقیقتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر داعی کی شخصیت کو بدنام کرتے ہیں۔ وہ اسی میں مشغول رہتے ہیں، یہاں تک کہ مرکر خدا کی پکڑ کے مستحق بن جاتے ہیں۔