An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ مَن كَفَرَ بِٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ إِيمَٰنِهِۦٓ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُۥ مُطْمَئِنٌّۢ بِٱلْإِيمَٰنِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِٱلْكُفْرِ صَدْرًۭا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌۭ مِّنَ ٱللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌۭ ﴾
“As for anyone who denies God after having once attained to faith-and this, to be sure, does not apply to one who does it under duress, the while his heart remains true to his faith, but [only, to] him who willingly opens up his heart to a denial of the truth-: upon all such [falls] God's condemnation, and tremendous suffering awaits them:”
خدا کے یہاں حقیقت کا اعتبار کیا جاتاہے، نہ کہ محض ظاہر کا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں انسان کے ساتھ بہت رعایت کی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص دل سے خدا کا سچا وفادار ہو مگر سخت مجبوری کی حالت میں اپنی جان بچانے کے لیے وقتی طور پر کوئی خلافِ ایمان کلمہ کہہ دے تو خدا کے یہاں اس پر اس کی پکڑ نہیں ہوگی۔ مگر وہ لوگ خدا کے یہاں ناقابلِ معافی ہیں جو اندر سے بدل چکے ہوں۔ جو شیطانی شبہات یا حالات کہ دباؤ سے متاثر ہو کر دل کی رضامندی سے کسی اور راستہ پر چل پڑیں۔ جب آدمی ایمان کے بجائے غیر ایمان کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کی وجہ ہمیشہ دنیا پرستی ہوتی ہے۔ وہ دنیوی مفاد کو خطرہ میں دیکھ کر غیر مومنانہ روش پر چل پڑتا ہے۔ اگر وہ آخرت کی قدر وقیمت کو سمجھتا تو دنیا کا مفاد اس کو اتنا حقیر نظر آتا کہ اس کو یہ بات بالکل لغو معلوم ہوتی کہ دنیا کی خاطر وہ آخرت کو چھوڑ دے۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کے فائدے اگر کسی کے نزدیک اہم ترین بن جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ معاملات کو آخرت کے نقطۂ نظر سے سوچ نہیں پاتا۔ وہ دیکھتا اور سنتا ہے مگر دنیا کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے چیزوں کا اخروی پہلو اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ وہ اسی پہلو کو دیکھ پاتا ہے جو دنیوی مصالح سے تعلق رکھتے ہوں۔ جو لوگ غفلت کے اس مرتبہ کو پہنچ جائیں ان کے حصہ میں ابدی نقصان کے سوا اور کچھ نہیں۔