An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةَ وَٱلدَّمَ وَلَحْمَ ٱلْخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيْرِ ٱللَّهِ بِهِۦ ۖ فَمَنِ ٱضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍۢ وَلَا عَادٍۢ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴾
“He has forbidden to you only carrion, and blood, and the flesh of swine, and that over which any name other than God's has been invoked; but if one is driven [to it] by necessity - neither coveting it nor exceeding his immediate need -verily, God is much forgiving, a dispenser of grace.”
اس آیت کا تعلق روز مرّہ کھانے والی چیزوں سے ہے۔ خدا نے جو قابلِ خوراک چیزیں پیدا کی ہیں، ان میں چند متعین چیزوں کو چھوڑ کر بقیہ سب انسان کے لیے حلال ہیں۔ تاہم قدیم مشرک انسان نے یہ کیا کہ خدا کی حلال کی ہوئی بہت سی غذاؤں کو بطور خود اپنے لیے حرام کرلیا۔ جدید ملحد انسان نے اس کے برعکس یہ کیا ہے کہ خدا کی حرام کی ہوئی بہت سی غذاؤں کو بطور خود اپنے لیے حلال ٹھہرا لیا۔ یہ دونوں چیزیں اس روح کی قاتل ہیں جس کو غذائی نعمتوں کے ذریعے انسان کے اندر پیدا کرنا مقصود ہے۔ غذا انسان کی تمام ضرورتوں میں سب سے زیادہ اہم ضرورت ہے جس کا ہر انسان کو صبح وشام تجربہ ہوتا ہے۔ خدا کو یہ مطلوب ہے کہ آدمی جب غذا کا استعمال کرے تو وہ اس کو خدا کا عطیہ سمجھ کر کھائے اور اس پر خدا کا شکر ادا کرے۔ مگر انسان نے پورے معاملہ کو الٹ دیا۔ قدیم مشرکانہ دور میں اس نے ان غذاؤں کو دیوتاؤں کے ساتھ منسوب کیا اور اس طرح ان کو خدا کے بجائے دیوتاؤں کی یاد کا ذریعہ بنا دیا۔ جدید ملحدانہ زمانہ میں یہ ہوا ہے کہ انسان نے سارے معاملہ کو اپنی لذتِ نفس کے تابع کردیا۔ اس نے خدا کی حرام غذاؤں کو بھی اپنے لیے حلال ٹھہرالیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کی پیداکی ہوئی چیزیں اس کے لیے صرف اپنی لذت کا دسترخوان بن کر رہ گئیں۔ مجبوری کی حالت میں اگر کوئی شخص خداکے غذائی قانون کو بدلے تو وہ ندامت کے جذبے کے تحت ایسا کرے گا، نہ کہ سرکشی کے جذبہ کہ تحت۔ اس لیے اس سے نفسیاتِ انسانی میں کوئی خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں۔