An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ مَتَٰعٌۭ قَلِيلٌۭ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ ﴾
“A brief enjoyment [may be theirs in this world] -but grievous suffering awaits them [in the life to come]!”
اس آیت کا تعلق عام قانون سازی سے نہیں ہے بلکہ غذائی چیزوں میں حرام وحلال مقرر کرنے سے ہے۔ انسان ہمیشہ یہ کرتارہا ہے کہ وہ کھانے کی چیزوں میں بعض کو جائز اور بعض کو ناجائز ٹھہراتا ہے۔ ایسا یا تو توہمات کے تحت ہوتا ہے یا خواہشات کے تحت۔ مگر اس کو کرنے والے اس کو مذہب کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ مذکورہ قسم کی تحریم وتحلیل کا یہ نقصان ہے کہ اس سے لوگوں میں توہم پرستی اور خواہش پرستی کا مزاج پیدا ہوتا ہے ۔ جب کہ آدمی کے لیے صحیح بات یہ ہے کہ وہ دنیا میں خدا پرست بن کر رہے۔ موجودہ زندگی میں امتحان کی وجہ سے انسان کو آزادی حاصل ہے۔ توہمات اور خواہشات کو اپنا دین بنانے کا موقع ملنے کی وجہ یہی آزادی ہے۔ جب امتحان کی مدت ختم ہوگی تو اچانک انسان پائے گا کہ اس کے لیے ایک ہی ممکن راستہ تھا۔ یعنی خدا پرستی کو اپنا دین بنانا۔ اس کے علاوہ جن چیزوں کو اس نے اپنایا، وہ صرف امتحانی آزادی کا غلط استعمال تھا، نہ کہ اس کا کوئی جائز حق۔ اس وقت اس کو وہی سزا بھگتنی پڑے گی، جو امتحان میں ناکام ہونے والوں کے لیے مقدر ہے۔