An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِنَّ إِبْرَٰهِيمَ كَانَ أُمَّةًۭ قَانِتًۭا لِّلَّهِ حَنِيفًۭا وَلَمْ يَكُ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ﴾
“VERILY, Abraham was a man who combined within himself all virtues, devoutly obeying God's will, turning away from all that is false, and not being of those who ascribe divinity to aught beside God:”
حضرت ابراہیم کو قرآن میں خداکے مطلوب انسان کے نمونہ کے طورپر پیش کیا گیاہے۔ وہ انسانوں كے ليے نمونہ كيسے بنے۔ اس لیے کہ وہ ماحول کے بگاڑ کے علی الرغم تنہا ایمان پر قائم ہونے والے انسان تھے۔ وہ اکیلے خداکے لیے کھڑے ہوئے جب کہ اس راہ میں کوئی ان کا ساتھ دینے والانہ تھا۔ حضرت ابراہیم پوری طرح اپنے آپ کو خدا کی پابندی میں دئے ہوئے تھے۔ انھوںنے عالم گیر مشرکانہ ماحول میں اپنے آپ کو توحید کے لیے یکسو کرلیا تھا۔ وہ تمام چیزوں کو خدا کی طرف سے ملی ہوئی چیز سمجھتے تھے اور ان کے لیے ان کا دل خدا کے شکر کے جذبہ سے بھرا رہتاتھا۔ حضرت ابراہیم کے اس کمالِ ایمان کی وجہ سے خدا نے ان پر اپنی ہدایت کی راہیں کھول دیں اور ان کو پیغمبری کے لیے چن لیا تاکہ وہ دنیا والوں کو خدا کے دین سے آگاہ کریں۔ حضرت ابراہیم کو دنیا کا حسنہ (بہتری) دی گئی اور آخرت کی بہتری بھی۔ یہ معلوم ہے کہ دنیا میں حضرت ابراہیم کو نہ عوام کی بھیڑ ملی، نہ اقتدار کا تخت، اور نہ اور کوئی دنیوی رونق کی چیز۔ اس کے باوجود قرآن کی یہ گواہی ہے کہ ان کو خدا کی طرف سے دنیا کی بہتری ملی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی نظر میں دنیا کی بہتری نہ عوامی مقبولیت کا نام ہے اور نہ دولت وحکومت کا۔ بلکہ دنیا کی بہتری خدا کی نظر میں اصلاً وہی چیزیں ہیں جن کو یہاں حضرت ابراہیم کی خصوصیات کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔