slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 125 من سورة سُورَةُ النَّحۡلِ

An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ ٱدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِ ۖ وَجَٰدِلْهُم بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِۦ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِٱلْمُهْتَدِينَ ﴾

“CALL THOU (all mankind] unto thy Sustainer's path with wisdom and goodly exhortation, and argue with them in the most kindly manner- for, behold, thy Sustainer knows best as to who strays from His path, and best knows He as to who are the right-guided.”

📝 التفسير:

دعوت کا عمل ایک ایسا عمل ہے جو انتہائی سنجیدگی اور خیر خواہی کے جذبہ کے تحت ابھرتاہے۔ خداکے سامنے جواب دہی کا احساس آدمی کو مجبور کرتاہے کہ وہ خدا کے بندوں کے سامنے داعی بن کر کھڑا ہو۔ وہ دوسروںکو اس لیے پکارتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اگر میں نے ایسا نہ کیا تو میں قیامت کے دن پکڑا جاؤں گا۔ اس نفسیات کا قدرتی نتیجہ ہے کہ آدمی کا دعوتی عمل وہ انداز اختیار کرلیتاہے جس کو حکمت، موعظت حسنہ اور جدال احسن کہاگیاہے۔ حکمت سے مراد دلیل وبرہان ہے۔ کوئی دعوتی عمل اسی وقت حقیقی دعوتی عمل ہے جب کہ وہ ایسے دلائل کے ساتھ ہو جس میں مخاطب کے ذہن کی پوری رعایت شامل ہو۔ مخاطب کے نزدیک، کسی چیز کے ثابت شدہ چیز ہونے کی جوشرائط ہیں،ان شرائط کی تکمیل کے ساتھ جو کلام کیاجائے اسی کو یہاں حکمت کا کلام کہاگیا ہے۔ جس کلام میں مخاطب کی ذہنی وفکری رعایت شامل نہ ہو وہ غیر حکیمانہ کلام ہے۔ اور ایسا کلام کسی کو داعی کا مرتبہ نہیںدے سکتا۔ موعظتِ حسنہ اس خصوصیت کا نام ہے جو درد مندی اور خیر خواہی کی نفسیات سے کسی کے کلام میں پیدا ہوتی ہے۔ جس داعی کا یہ حال ہو کہ خدا کے عظمت وجلال کے احساس سے اس کی شخصیت کے اندر بھونچال آگیا ہو جب وہ خدا کے بارے میں بولے گاتو یقینی طورپر اس کے کلام میں عظمتِ خداوندی کی بجلیاں چمک اٹھیں گی، جو داعی جنت اور جہنم کو دیکھ کر دوسروں کو اسے دکھانے کے لیے اٹھے، اس كے کلام میں یقینی طورپر جنت کی بہاریں اور جہنم کی ہولناکیاں گونجتی ہوئی نظر آئیںگی۔ ان چیزوں کی آمیزش داعی کے کلام کو ایسا بنا دے گی جو دلوں کو پگھلادے اور آنکھوں کو اشک بار کردے۔ دعوتی کلام کی ایجابی خصوصیات یہی دو ہیں— حکمت اور موعظت حسنہ۔ تاہم ہمیشہ دنیا میں کچھ ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو غیر ضروری بحثیں کرتے ہیں۔ جن کا مقصد الجھانا ہوتا ہے، نہ کہ سمجھنا سمجھانا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں مذکورہ قسم کا داعی جو انداز اختیار کرتا ہے، اسی کا نام جِدَال بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ہے۔ وہ ٹیڑھی بات کا جواب سیدھی بات سے دیتاہے، وہ سخت الفاظ سن کر بھی اپنی زبان سے نرم الفاظ نکالتا ہے۔ وہ الزام تراشی کے مقابلہ میںاستدلال اور تجزیہ کاانداز اختیار کرتا ہے۔ وہ اشتعال کے اسلوب کے جواب میں صبر کا اسلوب اختیار کرتا ہے۔ داعی حق کی نظر سامنے کے انسان کی طرف نہیں ہوتی بلکہ اس خدا کی طرف ہوتی ہے جو سب کے اوپر ہے۔ اس لیے وہ وہی بات کہتا ہے جو خداکے میزان میں حقیقی بات ٹھہرے، نہ کہ انسان کی میزان میں۔