An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا۟ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِۦ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌۭ لِّلصَّٰبِرِينَ ﴾
“Hence, if you have to respond to an attack (in argument], respond only to the extent of the attack levelled against you; but to bear yourselves with patience is indeed far better for (you, since God is with] those who are patient in adversity.”
یہاں داعی کا وہ کردار بتایا گیاہے جو مخالفین کے مقابلہ میں اس کو اختیار کرنا ہے۔ فرمایا کہ اگر مخالفین کی طرف سے ایسی تکلیف پہنچے جس کو تم برداشت نہ کرسکو تو تم کو اتنا ہی کرنے کی اجازت ہے جتنا تمھارے ساتھ کیا گیاہے۔ تاہم یہ اجازت صرف انسان کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے بطور رعایت ہے۔ ورنہ داعی کا اصل کردار تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ مدعو کی طرف سے پیش آنے والی ہر تکلیف پر صبر کرے۔ وہ مدعوسے حساب چکانے کے بجائے ایسے تمام معاملات کو خداکے خانہ میں ڈال دے۔ مخاطب اگر حق کو نہ مانے۔ وہ اس کو مٹانے کے درپے ہو جائے تواس وقت داعی کو سب سے بڑی تدبیر جو کرنی ہے وہ صبر ہے۔ یعنی ردعمل کی نفسیات یا جوابی کارروائیوں سے بچتے ہوئے مثبت طورپر حق کا پیغام پہنچاتے رہنا۔ داعی کو اصلاً جو ثبوت دینا ہے وہ یہ کہ وہ فی الواقع اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ اس کے اندر وہ کردار پیدا ہوچکا ہے جو ا س وقت پیدا ہوتاہے جب کہ آدمی دنیا کے پردوں سے گزر کر خدا کو اس کی چھپی ہوئی عظمتوں کے ساتھ دیکھ لے۔ اگر داعی یہ ثبوت دے دے تو اس کے بعد بقیہ امور میں خدا اس کی طرف سے کافی ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد دعوت کے مخالفین کی کوئی تدبیر داعی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی، خواہ وہ تدبیر کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ دنیا میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کی نگاہیں انسانوں میں اٹکی ہوئی ہوں۔ جن کو بس انسانوں کی کارروائیاں دکھائی دیتی ہوں۔ دوسرے وہ لوگ جن کی نگاہیں خدا میں اٹکی ہوئی ہوں۔ جو خدا کی طاقتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ پہلی قسم کے لوگ کبھی صبر پر قادر نہیں ہوسکتے۔ یہ صرف دوسری قسم کے انسان ہیں جن کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ شکایتوں اور تلخیوں کو سہہ لیں۔ اور جو کچھ خدا کی طرف سے ملنے والا ہے اس کی خاطر اس کو نظر انداز کردیں جو انسان کی طرف سے مل رہاہے۔ داعی کو جس طرح جوابی نفسیات سے پرہیز کرنا ہے اسی طرح اس کو جوابی کارروائی سے بھی اپنے آپ کو بچانا ہے۔ مخالفین کی سازشیں اور تدبیریں بظاہر ڈراتی ہیں کہ کہیں وہ دعوت اور داعی کو تہس نہس نہ کر ڈالیں۔ مگر داعی کو ہر حال میں خدا پر بھروسہ رکھنا ہے۔ اس کو یہ یقین رکھنا ہے کہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اور وہ یقینا ً دعوت حق کا ساتھ دے کر باطل پرستوں کو ناکام بنا دے گا۔