An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَقَالَ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُوا۟ لَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِۦ مِن شَىْءٍۢ نَّحْنُ وَلَآ ءَابَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن دُونِهِۦ مِن شَىْءٍۢ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى ٱلرُّسُلِ إِلَّا ٱلْبَلَٰغُ ٱلْمُبِينُ ﴾
“Now they who ascribe divinity to aught beside God say, "Had God so willed, we would not have worshipped aught but Him - neither we nor our forefathers; nor would we have declared aught as forbidden without a commandment from Him." Even thus did speak those [sinners] who lived before their time; but, then, are the apostles bound to do more than clearly deliver the message [entrusted to them]?”
غافل انسان اپنے حق سے انحراف کو جائز ثابت کرنے کے لیے جو باتیں کرتا ہے، اس میں ایک بات یہ ہے کہ جب اس دنیا میں ہر چیز خدا کی مرضی سے ہوتی ہے تو ہمارا موجودہ عمل بھی خدا کی مرضی سے ہے۔ اس کی مرضی نہ ہوتی تو ہم ایسا کرہی نہ پاتے۔ اگر واقعی خدا کو ہمارے کام پسند نہ ہوتے تووہ ہمیں ایسا کام کرنے کیوں دیتا۔ پھر تو ایسا ہونا چاہیے تھا کہ جب بھی ہم اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کریںتو وہ فوراً ہمیں روک دے۔ یہ بات آدمی صرف اس لیے کہتا ہے کہ وہ حق ناحق کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوتا۔ اگر وہ سنجیدہ ہوتو فوراً اس کی سمجھ میںآجائے کہ اس کو موجودہ عمل کی جو چھوٹ ہے، وہ امتحان کی وجہ سے ہے، نہ کہ خدا کی پسند کی وجہ سے۔