An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ بِٱلْبَيِّنَٰتِ وَٱلزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴾
“[and they will tell you that their prophets, too, were but mortal men whom We had endowed] with all evidence of the truth and with books of divine wisdom. And upon thee [too] have We bestowed from on high this reminder, so that thou might make clear unto mankind all that has ever been thus bestowed upon them, and that they might take thought.”
’’اہل علم‘‘ سے مراد یہاں اہل کتاب ہیں۔ یا وہ لوگ جو پچھلی امتوں اور پچھلے پیغمبروں کے تاریخی حالات کا علم رکھتے ہیں۔ جو چیز ان سے پوچھنے کے لیے فرمائی گئی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ بلکہ یہ کہ پچھلے زمانوں میں جو پیغمبر آئے وہ انسان تھے یا غیر انسان۔ مکہ والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انسان ہونے کو اس بات کی دلیل بناتے تھے کہ آپ خدا کے پیغمبر نہیں ہیں۔ ان سے کہا گیا کہ جن قوموں میں اس سے پہلے پیغمبر آتے رہے ہیں (مثلاً یہود)، ان سے پوچھ کر معلوم کرلو کہ ان کے یہاں جو پیغمبر آئے وہ انسان تھے یا فرشتے۔ پیغمبر صرف ’’یاد دہانی‘‘ کے لیے آتا ہے، یہ یاد دہانی اصلاً دلائل کے ذریعہ ہوتی ہے۔ تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ پیغمبر اپنے آپ کو اس معاملہ میں پوری طرح سنجیدہ ثابت کرے۔ اگر ایک شخص لوگوں کو جنت اور جہنم سے باخبر کرے اور اسی کے ساتھ وہ ایسے کاموں میں مشغول ہوجو جنت اور جہنم کے معاملہ میں اس کو غیر سنجیدہ ثابت کرتے ہوں تو اس کا دعوتی کام لوگوں کی نظر میں مذاق بن کر رہ جائے گا۔ تاہم دعوت خواہ کتنے ہی اعلیٰ درجہ پر او رکتنے ہی کامل انداز میں پیش کردی جائے اس سے وہی لوگ فائدہ اٹھائیں گے جو خود بھی اس پردھیان دیں۔ جو لوگ دھیان نہ دیں وہ کسی بھی حالت میں دعوت حق سے فیض ياب نہیں ہوسکتے۔