An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَإِنَّ لَكُمْ فِى ٱلْأَنْعَٰمِ لَعِبْرَةًۭ ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِى بُطُونِهِۦ مِنۢ بَيْنِ فَرْثٍۢ وَدَمٍۢ لَّبَنًا خَالِصًۭا سَآئِغًۭا لِّلشَّٰرِبِينَ ﴾
“And, behold, in the cattle [too] there is indeed a lesson for you: We give you to drink of that [fluid] which is [secreted from] within their bellies between that which is to be eliminated [from the animal's body] and [its] life-blood: milk pure and pleasant to those who drink it.”
دودھ دینے والے جانوروں میں یہ عجیب خصوصیت ہے کہ وہ جو کچھ کھاتے ہیں وہ ایک طرف ان کے اندر گوبر اور خون بناتا ہے، دوسری طرف اسی کے درمیان سے دودھ جیسا قیمتی سیال بھی بن کر نکلتاہے جو انسان کے لیے بے حد قیمتی غذا ہے۔ یہی حال درختوں کا ہے۔ ان کے اندر مٹی اور پانی جیسی چیزیں داخل ہوتی ہیں اور پھر ان کے اندرونی نظام کے تحت وہ رس دار پھل کی صورت میں شاخوں میں لٹک پڑتی ہیں۔ یہ واقعات اس لیے ہیں کہ وہ لوگوں کو خدا کی یاد دلائیں۔ آدمی اس میں خدا کی قدرت کی جھلکیاں دیکھنے لگے، حتی کہ اس کا یہ احساس اتنا بڑھے کہ وہ پکار اٹھے کہ خدایا تو جو گوبر اور خون کے درمیان سے دودھ جیسی چیز نکالتا ہے، میرے ناموافق حالات کے اندر سے موافق نتائج ظاہر کردے۔ تو جو مٹی اور پانی کو پھل میں تبدیل کردیتاہے، میری بے قیمت زندگی کو باقیمت زندگی بنا دے۔ ’’تم ان سے نشہ کی چیز بھی بناتے ہو اور رزقِ حسن بھی‘‘۔ ا س میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں خدا نے جو چیزیں پیدا کی ہیں ان کا صحیح استعمال بھی ہے اور ان کا غلط استعمال بھی۔ کھجور اور انگور کو ا س کی قدرتی صورت میں کھایا جائے تو وہ صحت بخش غذا ہے جس سے جسم اور عقل کو توانائی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر انسانی عمل سے اس کو نشہ میں تبدیل کردیا جائے تو وہ جسم کو بھی نقصان پہنچاتی ہے اور عقل کو بھی بگاڑدینے والی ہے۔