An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍۢ لَّمْ تَكُونُوا۟ بَٰلِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ ٱلْأَنفُسِ ۚ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴾
“And they carry your loads to [many] a place which [otherwise] you would be unable to reach without great hardship to yourselves. Verily, your Sustainer is most compassionate, a dispenser of grace!”
انسان کا آغاز ایک حقیر مادہ سے ہوتاہے۔ مگر انسان جب بڑا ہوتا ہے تو وہ خدا کا مد مقابل بننے کی کوشش کرتاہے۔ وہ خدا کی کائنات میں بے خدا بن کر رہنا چاہتاہے۔ اگر انسان اپنی ابتدائی حقیقت کو نظر میں رکھے تو کبھی وہ زمین میں سرکشی کا رویہ اختیار نہ کرے۔ انسان کو موجودہ دنیا میں جو نعمتیں حاصل ہیں ان میں سے ایک چوپائے ہیں۔ یہ گویا قدرت کی زندہ مشینیں ہیں جو انسان کی مختلف ضروریات فراہم کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ چوپائے گھاس اور چارہ کھاتے ہیں۔ اور ان کو انساني خوراک کے لیے گوشت اور دودھ میں تبدیل کرتے ہیں۔ وہ اپنے جسم پر بال اور اون نکالتے ہیں جن سے آدمی اپنی پوشاک بناتاہے۔ وہ انسان کو اور اس کے سامان کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔ ان چوپایوں کا گلہ آدمی کے اثاثہ میں شامل ہو کر اس کی حیثیت اور شان میں اضافہ کرتاہے۔ ’’اور خدا ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے‘‘۔ اس سے مراد وہ فائدے ہیں جو چوپایوں کے علاوہ دوسرے ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔ ان دوسرے ذرائع کا ایک حصہ قدیم زمانہ میں بھی انسان کو حاصل تھا۔ اور ان کا بڑا حصہ موجودہ زمانہ میں دریافت کرکے انسان ان سے فائدہ اٹھا رہاہے۔ مثال کے طور پر جانور کی جگہ مشین۔ دنیا میں انسان کے لیے جوبے شمار نعمتیں ہیں وہ انسان نے خود نہیں بنائی ہیں بلکہ وہ خدا کی طرف سے اس کے لیے مہیا کی گئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس دنیا کا خالق ایک مہربان خالق ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے خالق کا شکر گزار بنے اور اس کا حق اداکرے جو محسن ہونے کی حیثیت سے اس کے اوپر لازم آتاہے۔