An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَآ أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَىْءٍۢ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَىٰهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِى هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِٱلْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَٰطٍۢ مُّسْتَقِيمٍۢ ﴾
“And God propounds [to you] the parable of two [other] men -one of them dumb, unable to do anything of his own accord, and a sheer burden on his master: to whichever task the latter directs him, he accomplishes no good. Can such a one be considered the equal of [a wise man] who enjoins the doing of what is right and himself follows a straight way?”
اوپر آیت نمبر 75 میں خدا کے مقابلے میں شرکاء کا بے حقیقت ہونا بتایاگیا تھا۔ اب آیت 76 میں رسول کے مقابلہ میں ان ہستیوں کا بے حقیقت ہونا واضح کیا جارہا ہے جن کے بل پر آدمی رسول کی ہدایت کو نظر انداز کرتاہے۔ پیغمبر کو خدا اپنی خصوصی توجہ کے ذریعہ اس شاہراہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جوحق کی شاہراہ ہے اور جو براہِ راست خدا تک پہنچانے والی ہے۔ پیغمبر اور اس کے ساتھی اس شاہراہ پر خود چلتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی طرف رہنمائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو پیغمبر کے راستے کے سوا دوسرے راستوں کی طرف بلاتے ہیں۔ ان کی مثال اندھے بہرے کی ہے۔ ان کے پاس کان نہیں کہ وہ خدا کی آوازوں کو سنیں، ان کے پاس آنکھ نہیں کہ ا س کے ذریعہ خدا کے جلوؤں کو دیکھیں۔ ان کے اندر وہ قلب ودماغ نہیں کہ وہ کائنات میں پھیلی ہوئی خدائی نشانیوں کو پالیں۔ سمع وبصر وفواد اس لیے دئے گئے تھے کہ ان کے ذریعہ آدمی مخلوقات کے آئینہ میں خالق کا جلوہ دیکھے۔ مگر انسان نے ان کا استعمال یہ کیا کہ وہ خود مخلوقات میں اٹک کر رہ گیا۔