An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَا تَكُونُوا۟ كَٱلَّتِى نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنۢ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَٰثًۭا تَتَّخِذُونَ أَيْمَٰنَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِىَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ ٱللَّهُ بِهِۦ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴾
“Hence, be not like her who breaks and completely untwists the yarn which she [herself] has spun and made strong-[be not like this by] using your oaths as a means of deceiving one another, simply because some of you may be more powerful than others." By all this, God but puts you to a test-and [He does it] so that on Resurrection Day He might make clear unto you all that on which you were wont to differ.”
سوت کاتنا محنت کے ذریعہ بکھرے ہوئے ریشوں کا یکجا کرنا ہے۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ انسان کے لیے کار آمد چیزیں تیا رہوں۔ اب اگر کوئی مرد یا عورت دن بھر محنت کرکے سوت کاتے اور پھر شام کے وقت اپنے کاتے ہوئے سوت کو پارہ پارہ کردے تو اس کی ساری محنت بے نتیجہ ہو کر رہ جائے گی۔ یہی معاملہ ان لوگوں کا ہے جو آپس میں ایک معاہدہ کریں اور پھر ایک یا دوسرا فریق کسی معقول سبب کے بغیر اس کو توڑ ڈالے۔ کاتے ہوئے سوت کو خواہ مخواہ بکھیرنا اپنی محنت کو اکارت کرنا ہے۔ اسی طرح کيے ہوئے معاہدے کو توڑڈالنا اس پورے عمل کو باطل کرنا ہے جس کے نتیجے میں باہمی اتفاق کا ایک معاملہ وجود میں آیا تھا۔ موجودہ دنیا میں ایک آدمی دوسرے آدمیوں کے ساتھ مل کر زندگی گزارتا ہے۔ ہر آدمی کو اپنا کام دوسرے بہت سے آدمیوں کے درمیان کرنا ہوتاہے۔ اس بنا پر اجتماعی زندگی میں باہمی اعتماد کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اسی اجتماعی زندگی کو قائم کرنے کی خاطر بار بار ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان معاہدے اور قول وقرار وجود میں آتے ہیں، کبھی قسم کھا کر اور کبھی قسم کے بغیر۔ اب اگر لوگ ایسا کریں کہ معاہدوں کو حقیقی جواز کے بغیر توڑ ڈالیں تو اجتماعی زندگی میں فساد پھیل جائے اور کسی قسم کی تعمیر ممکن نہ رہے۔ خدا کے نام پر معاہدہ کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ باقاعدہ قسم کے الفاظ اداکرکے کسی سے کوئی عہد کیاجائے۔ دوسري یہ کہ قسم کے الفاظ نہ بولے جائیں تاہم جو معاہدہ کیا گیا ہے اس میں خدا کا حوالہ بھی کسی پہلو سے شامل ہو۔ ایسی تمام صورتوں میں عہد کرنے والے گویا خدا کو اس معاملہ کا گواہ یا ضامن بناتے ہیں۔ ایسے معاہدے جن میں خدا کا نام شامل کیا گیا ہو ان کو توڑنا اور بھی زیادہ برا ہے، کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی کو دوسروں کے اوپراپنا اعتبار قائم کرنا تھا تو اس نے خدا کے نام کو استعمال کیااور جب اس پر نفس یا مفاد کے تقاضے غالب آئے تو اس نے خدا کو نظر انداز کردیا۔ افراد یا قوموں کے درمیان جو معاہدے ہوتے ہیں ان کی دوصورتیںهيں ۔ ایک یہ کہ وہ اصولوں کے تابع ہوں۔ دوسري یہ کہ وہ مفادات کے تابع ہوں۔ قدیم زمانے میں اور آج بھی عام حالت یہ ہے کہ جب معاہدہ کرنے میں کوئی فائدہ نظر آیا تو معاہدہ کرلیا ۔ اور جب توڑنا مفید معلوم ہوا تو اس کو توڑ دیا۔ اس کے برعکس، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ معاہدات کو شرعی اور اخلاقی اصولوں کے تابع رکھا جائے۔