An-Nahl • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِنَّهُۥ لَيْسَ لَهُۥ سُلْطَٰنٌ عَلَى ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴾
“Behold, he has no power over those who have attained to faith and in their Sustainer place their tray trust:”
قرآن کو پڑھنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، اپنی نصیحت کے لیے پڑھنا۔ دوسري، دعوت کی خاطر دوسروں کے سامنے پیش کرنا، خواہ قر آن کے الفاظ دُہرائے جائیں یا اس کے مطالب بیان کيے جائیں۔دونوں صورتوں میں ضروری ہے کہ آدمی شیطان کے مقابلہ میں خدا کی پناہ مانگے۔ تعوذ کا مطلب صرف کچھ مقرر الفاظ کی تکرار نہیں بلکہ اپنے آپ کو شعوری طورپر مسلح کرنا ہے تاکہ شیطان کا حملہ بے اثر ہو کر رہ جائے۔ شیطان ہر وقت آدمی کی گھات میںہے۔وہ قرآن کے الفاظ کے مفہوم کواس کے قاری کے ذہن میں بدل دیتاہے۔ اور جو چیز متن میں نہ ہو اس کو تفسیر میں شامل کرا دیتاہے۔ اسی طرح شیطان داعی اور مدعوکے درمیان ایسے فتنے ابھارتا ہے جس کے نتیجے میں دعوت کا عمل رک جائے۔ تاہم شیطان کو خدانے صرف بہکانے اور ورغلانے کی آزادی دی ہے۔ اس کو یہ طاقت نہیں دی کہ وہ کسی کو بزور گمراہی کے راستے پر ڈال دے۔ جو لوگ خدا سے اپنا ذہنی رابطہ قائم کيے ہوئے ہوں ان پر اس کا کچھ بس نہیں چلتا۔ البتہ جو لوگ خدا سے غافل ہوں اور شیطان کی باتوں پر دھیان دیں ان کے اورپر شیطان مسلط ہوجاتا ہے اور پھر جدھر چاہتا ہے ادھر انھیں لے جاتا ہے۔