Al-Kahf • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ هَٰٓؤُلَآءِ قَوْمُنَا ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ ءَالِهَةًۭ ۖ لَّوْلَا يَأْتُونَ عَلَيْهِم بِسُلْطَٰنٍۭ بَيِّنٍۢ ۖ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًۭا ﴾
“These people of ours have taken to worshipping [other] deities instead of Him, without being able to adduce any reasonable evidence in support of their beliefs; and who could be more wicked than he who invents a lie about God?”
’’یہ لوگ واضح دلیل کیوں نہیں لاتے‘‘ —اس جملہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایمان لانے کے بعد ان نوجوانوں اور قوم کے بڑے لوگوں کے درمیان ایک مدت تک بحث وگفتگو رہی۔ مگر اس درمیان میں ان بڑوںکی طرف سے جو باتیں کہی گئیں ان میں شرک کے حق میں کوئی واضح دلیل نہ تھی۔ اس تجربہ نے ان توحید پرست نوجوانوں کے یقین کواور زیادہ بڑھا دیا۔ ان کے لیے ناممکن ہوگیا کہ غیر ثابت شدہ چیز کی خاطر ثابت شدہ چیز کو ترک کردیں۔ مذکورہ مخالفت کے بعد اگر وہ بڑوں کی بڑائی کواہمیت دیتے تو وہ بے یقینی اور تذبذب کا شکار ہوجاتے۔ مگر جب انھوںنے دلیل اور برہان کو اہمیت دی تو اس نے ان کے یقین میں اور اضافہ کردیا۔ کیوں كه دلیل اور برہان کے اعتبار سے یہ بڑے انھیں بالکل چھوٹے نظر آئے۔ اپنی تمام ظاہری عظمتوں کے باوجود وہ لوگ جھوٹ کی زمین پر کھڑے ہوئے ملے، نہ کہ سچ کی زمین پر۔