Al-Kahf • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوٓا۟ أَنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّۭ وَأَنَّ ٱلسَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَآ إِذْ يَتَنَٰزَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا۟ ٱبْنُوا۟ عَلَيْهِم بُنْيَٰنًۭا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ ٱلَّذِينَ غَلَبُوا۟ عَلَىٰٓ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًۭا ﴾
“AND IN THIS way have We drawn [people's] attention to their story, so that they might know - whenever they debate among themselves as to what happened to those [Men of the Cave] that God's promise [of resurrection] is true, and that there can be no doubt as to [the coming of] the Last Hour. And so, some [people] said: "Erect a building in their memory; God knows best what happened to them." Said they whose opinion prevailed in the end: "Indeed, we must surely raise a house of worship in their memory!"”
انسان سو سال یا اس سے بھی کم مدّت موجودہ زمین پر زندگی گزار کر مر جاتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ مر کر باقی رہتا ہے اور دوبارہ ایک نئی دنیامیں اٹھتا ہے جہاں اس کے لیے یا ابدی راحت ہے یا ابدی عذاب۔ یہ انسان کا سب سے زیادہ سنگین مسئلہ ہے اور اس پر لوگوں کے درمیان ہمیشہ بحث جاری رہی ہے۔ اس کی اسی اہمیت کی بنا پر خدا نے ایسا کیا کہ عقلی دلیل کے ساتھ اس کے حق میں حسی دلیل کا بھی انتظام فرمایا، تاکہ ’’زندگی بعد موت‘‘ کے معاملہ میں کسی کے لیے اس کی گنجائش باقی نہ رہے۔ مختلف زمانوں میں یہ حسی دلیل مختلف انداز سے دکھائی جاتی رہی ہے۔ پانچویں صدی عیسوی میں اصحاب کہف کا ’’موت‘‘ کے بعد دوبارہ غار سے نکلنا اسی قسم کا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ موجودہ زمانہ میں ما فوق سائنس (meta science) کی تحقیقات بھی غالباً اُسی نوعیت کی مثاليں ہیں، جن سے زندگی بعد موت کا نظریہ حسی معیار استدلال پر ثابت ہوتاہے۔ اصحاب کہف دو سوسال ( یا اس سے زیادہ مدت کے بعد) جب غار سے نکلے تو ان کے شہر کی دنیا بالکل بدل چکی تھی۔ غالباً 250 ء میں وہ اپنے شہر افیسس سے نکل کر غار میں گئے تھے۔ اس وقت اس علاقہ میں بت پرست حکمراں ڈیسیس کی حکومت تھی۔ اس درمیان میں مسیحی مبلغین کی کوششوں سے رومی بادشاہ قسطنطین (272-337) عیسائی ہوگیا اور اس کے بعد سارے رومی علاقہ میں عیسائی مذہب پھیل گیا۔ 447 ء میں جب اصحاب کہف دوبارہ اپنے شہر میں واپس آئے تو ان کے شہر ميں عیسائیت کا غلبہ ہوچکا تھا۔ جب یہ ساتوں نوجوان غار سے باہر آئے اور شاہی خزانہ میں محفوظ ان کے نام کی تختی، نیز دوسرے قرائن سے تصدیق ہوگئی کہ یہ وہی نوجوان ہیں جو بت پرستی کے دور میں اپنے مسیحی عقائد کی خاطر شہر چھوڑ کر چلے گئے تھے تو وہ فوراً لوگوں کی عقیدت کا مرکز بن گئے۔ نیا رومی حکمراں تھیوڈوسیس خود ان سے ملنے او ر ان کی برکت لینے کے لیے پیدل چل کر ان کے پاس آیا،اور جب ان نوجوانوں کا انتقال ہوا تو ان کی یاد گار میں ان کے غار کے اوپر عبادت خانہ تعمیر کیاگیا۔