Al-Kahf • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ سَيَقُولُونَ ثَلَٰثَةٌۭ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌۭ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًۢا بِٱلْغَيْبِ ۖ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌۭ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُل رَّبِّىٓ أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌۭ ۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَآءًۭ ظَٰهِرًۭا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًۭا ﴾
“[And in times to come] some will say, "[They were] three, the fourth of them being their dog," while others will say, "Five, with their dog as the sixth of them" -idly guessing at something of which they can have no knowledge -and [so on, until] some will say, "[They were] seven, the eighth of them being their dog." Say: "My Sustainer knows best how many they were. None but a few have any [real] knowledge of them. Hence, do not argue about them otherwise than by way of an obvious argument, and do not ask any of those [story-tellers] to enlighten thee about them."”
اصحاب کہف کے بارہ میں کچھ لوگ غیر ضروری بحثوں میں مبتلا تھے۔ کسی نے کہا کہ ان کی تعداد تین تھی اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ کسی نے کہا کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ کسی نے کہا کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ مگر اس قسم کی بحثیں مزاج کی خرابی کی علامت ہیں۔ جب دینی روح زندہ ہو تو سارا زور اصل حقیقت پر دیا جاتا ہے۔ اور جب قوم پر زوال آتا ہے تو اصل روح پس پشت چلی جاتی ہے اور ظاہری تفصیلات بحث و مناظرہ کا موضوع بن جاتی ہیں۔ سچے خدا پرست کو چاہیے کہ وہ ان بحثوں میں نہ پڑے بلکہ اگر کوئی دوسرا شخص اس قسم کے سوالات کرے تو اس کو اجمالی جواب دے کر گزر جائے۔