Al-Kahf • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَعَسَىٰ رَبِّىٓ أَن يُؤْتِيَنِ خَيْرًۭا مِّن جَنَّتِكَ وَيُرْسِلَ عَلَيْهَا حُسْبَانًۭا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ فَتُصْبِحَ صَعِيدًۭا زَلَقًا ﴾
“yet it may well be that my Sustainer will give me something better than thy garden -just as He may let loose a calamity out of heaven upon this [thy garden], so that it becomes a heap of barren dust”
خدا کسی انسان کو دولت دے تو اس کو خدا کا شکرگزار بندہ بن کر رہنا چاہیے۔ لیکن اگر ذہن صحیح نہ ہو تو دولت مندی آدمی کے لیے سرکشی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ذہن صحیح ہے تو مفلسی میں بھی آدمی خدا کو نہیں بھولتا۔ جو کچھ ملا ہے اس پر قانع رہ کر وہ امید رکھتا ہے کہ اس کا خدا اس کو مزید دے گا۔ آدمی اگر آنکھ کھول کر دنيا ميں رہے تو کبھی وہ سرکشی میں مبتلا نہ ہو۔ انسان ایک حقیر وجود کی حیثیت سے پرورش پاتا ہے۔ اس کو حادثات پیش آتے ہیں۔ اس کو بیماری اور بڑھاپا لاحق ہوتاہے۔ پانی اور دوسری چیزیں جن کے ذریعہ وہ اس دنیا میں اپنا ’’باغ‘‘ اگاتاہے ان میں سے کوئی چیز بھی اس کے ذاتی قبضہ میں نہیں۔ یہ سب اس لیے ہے کہ آدمی متواضع بن کر دنیا میں رہے۔ مگر ظالم انسان کسی چیز سے سبق نہیں لیتا۔ اس کو اس وقت تک ہوش نہیں آتا جب تک وہ ہر چیز سے محروم ہوکر اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لے کہ اس کے پاس عجز کے سوا اور کچھ نہ تھا۔