Al-Kahf • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَٱنطَلَقَا حَتَّىٰٓ إِذَا لَقِيَا غُلَٰمًۭا فَقَتَلَهُۥ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًۭا زَكِيَّةًۢ بِغَيْرِ نَفْسٍۢ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْـًۭٔا نُّكْرًۭا ﴾
“And so the two went on, till, when they met a young man, [the sage] slew him -(whereupon Moses] exclaimed: "Hast thou slain an innocent human being without [his having taken] another man's life? Indeed, thou hast done a terrible thing!"”
اچھی کشتی کو عیب دار بنانا اور چھوٹے بچہ کو ہلاک کرنا بظاہر ایسے کام ہیں جو صحیح نہیں۔ مگر جیسا کہ آگے کی آیات بتاتی ہیں، اس میں نہایت گہری مصلحت چھپی ہوئی تھی۔ یہ بظاہر غلط کام حقیقت کے اعتبار سے بالکل صحیح اور مفید کام تھے۔ اس میں اس مسئلہ کا بھی ایک جواب ہے جس کو عام طورپر خرابی کا مسئلہ (problem of evil) کہاجاتاہے۔ انسانی دنیا کی بہت سی چیزیں جن کو دیکھ کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ دنیا کے نظام میں خرابیاں ہیں، وہ گہری مصلحت پر مبنی ہوتی ہیں۔ موجودہ زندگی میں یقیناً اس مصلحت پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ مگر آخرت میں یہ پردہ باقی نہ رہے گا۔ اس وقت آدمی جان لے گا کہ جو کچھ ہوا وہی ہونا بھی چاہیے تھا۔