Al-Kahf • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَإِنَّا لَجَٰعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًۭا جُرُزًا ﴾
“and, verily, [in time] We shall reduce all that is on it to barren dust!”
شاید تم اپنے کو ہلاک کرڈالو گے— یہ جملہ بتاتا ہے کہ داعی اگر دعوت کے معاملہ میں سنجیدہ ہوتو شدت احساس سے اس کا کیا حال ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دعوتِ حق کا اتمام اس انتہا پر پہنچ کر ہوتا ہے جب یہ کہا جانے لگے کہ داعی شاید اس غم میں اپنے کو ہلاک کرلے گا کہ لوگ حق کی دعوت کو قبول نہیں کر رہے ہیں۔ ایک دعوت جو دلیل کے اعتبار سے انتہائی واضح ہو، جس کو پیش کرنے والا درد مندی کی آخری حد پر پہنچ کر اس کو لوگوں کے لیے سنجیدہ غور وفکر کا موضوع بنا دے، اس کے باوجود لوگ اسے نہ مانیں تو اس نہ ماننے کی وجہ کیا ہوتی ہے۔ اس کی وجہ دنیا کی دل فریبیاں ہیں۔ موجودہ دنیا اتني پُر کشش ہے کہ آدمی اس سے اوپر اٹھ نہیں پاتا۔ اس لیے وہ ایسی دعوت کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتا جو اس کی توجہات کو سامنے کی دنیا سے ہٹا کر اس دنیا کی طرف لے جار ہی ہے جس کی رونقیں بظاہر دکھائی نہیں دیتیں۔ مگر زمین کی دل فریبیاں انتہائی عارضی ہیں۔ وہ امتحان کی ایک مقرر مدت تک ہیں۔ اس کے بعد زمین کی یہ حیثیت ختم کردی جائے گی۔ یہاں تک کہ وہ صحراکی طرح بس ایک خشک میدان ہو کر رہ جائے گی۔