Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَوْ أَنَّهُمْ ءَامَنُوا۟ وَٱتَّقَوْا۟ لَمَثُوبَةٌۭ مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ خَيْرٌۭ ۖ لَّوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ ﴾
“And had they but believed and been conscious of Him, reward from God would indeed have brought them good-had they but known it!”
آسمانی کتاب کے حامل کسی گروہ کا بگاڑ ہمیشہ صرف ایک ہوتا ہے— نجاتِ آخرت جس کا انحصار تمام تر عمل صالح پر رکھا گیا ہے، اس کا راز بے عملی میں تلاش کرلینا۔ اللہ کا کلام حقیقۃً عمل کی پکار ہے۔ مگر جب قوم پر زوال آتا ہے تو اس کے افراد مقدس کلام کے لکھ لینے یا زبان سے بول دینے کو ہر قسم کی برکتوں کا پُر اسرار نسخہ سمجھ لیتے ہيں۔ یہی وہ نفسیاتی زمین ہے جس کے اوپر سحر اور کہانت اور عملیات وجود میں آتے ہیں۔ چھو منتر جیسی چیزوں سے جنت حاصل کرنے والے دنیا کو بھی چھو منتر کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ بزرگوں سے عقیدت کو نجات کا ذریعہ سمجھنے والے ارواح سے تعلق قائم کرکے اپنے دنیوی مسائل حل کرنے لگتے ہیں۔ اورادوظائف کے طلسماتی اثرات پر یقین کرنے والے سیاسی چمتکار دکھا کر ملت کی تعمیر اور دین کے احیا کا منصوبہ بناتے ہیں۔ جب قوم کے افراد بے عملی اور توہم پرستی (superstition) کے راستے پر چل پڑتے ہیں تو ان کے درمیان ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جن کے لیے سحر و کہانت تجارت بن جاتی ہے، اور اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے مشہور قومی بزرگوں کا نام استعمال کرنے لگتے ہیں ۔ ایسا ہر زمانے میں ہوا ہے، مثلاً یہود نے اپنے زوال کے زمانے میں سحر و کہانت کو جسٹیفائی (justify)کرنے کے لیے اس کو حضرت سلیمان کی طرف منسوب کردیا۔ انھوں نے کہنا شر وع کیا کہ سلیمان کو جنوں اور ہواؤں پر جو غیر معمولی اقتدار حاصل تھا وہ سب علم سحر کی بناپر تھا اور یہ سلیمانی علم بعض جنوں کے ذریعہ ہم کو حاصل ہوگیا ہے۔ اس طرح حضرت سلیمان کی طرف منسوب ہو کر عملیات کا فن ان کے اندر بڑے پیمانے پر پھیل گیا۔اس وقت قوم یہودکی آزمائش کے لیے بابل میں دو فرشتے بھیجے گئے جو درویشوں کے بھیس میں جادو اور کہانت سے بچاؤ کا عمل سکھاتے تھے۔ تاہم وہ کہتے رہتے تھے کہ یہ تمھارا امتحان ہے، یعنی تم اس کا صحیح استعمال کرنا۔ مگر اس انتباہ کے باوجود وہ ا س فن پر ٹوٹ پڑے۔ حتی کہ انھوں نے اس کو ناجائز مقاصد میں استعمال کرنا شروع کردیا۔