Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ مَّا يَوَدُّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنْ أَهْلِ ٱلْكِتَٰبِ وَلَا ٱلْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍۢ مِّن رَّبِّكُمْ ۗ وَٱللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِۦ مَن يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ ذُو ٱلْفَضْلِ ٱلْعَظِيمِ ﴾
“Neither those from among the followers of earlier revelation who are bent on denying the truth, nor those who ascribe divinity to other beings beside God, would like to see any good ever bestowed upon you from on high by your Sustainer; but God singles out for His grace whom He wills-for God is limitless in His great bounty.”
کسی کو خدا کی طرف سے سچائی ملے اور وہ اس کا داعی بن کر کھڑا ہو جائے تو لوگ اس کے مخالف بن جاتے ہیں ۔ کیوں کہ اس کی دعوت میں لوگوں کو اپنی حیثیت کی نفی (negation)دکھائی دینے لگتی ہے۔ لیکن زوال یافتہ لوگ اس بات کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں کہ وہ اپنی روایتی عظمت کی نفی کریں ۔ کیوں کہ وہ پیغمبری کو اپنا قومی حق سمجھتے ہیں ۔ ان کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہوتی ہے کہ ان کے گروہ کے سوا کسی اور گروہ میں خدا کے پیغمبرکا ظہور ہو۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اہل کتاب آپ کی دعوت کے بارے میں کنفیوزن پیدا کرنے والی بحثیں چھیڑتے تاکہ لوگوں کو اس شبہ میں ڈال دیں کہ آپ جو کچھ پیش کررہے ہیں وہ محض ایک شخص کی ذاتی اپج ہے۔ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیز نہیں ہے۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ قرآن میں بعض قانونی احکام تورات سے مختلف تھے۔ ان کو دیکھ کر وہ کہتے کہ کیا خدا بھی حکم دینے میں غلطی کرتاہے کہ ایک بار ایک حکم دے اور اس کے بعد اسی معاملہ میں دوسرا حکم بھیجے۔ اس طرح کے شبہات انھوں یہود نے اتنی کثرت سے پھیلائے کہ خود مسلمانوں میں کچھ سادہ مزاج لوگ ان کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے لگے۔ اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی وجہ سے وہ اس حد تک چلے گئے کہ جب یہ لوگ آپ کی مجلسوں میں بیٹھتے تو ایسے الفاظ بولتے جن سے آپ کا بے حقیقت ہونا ظاہر ہوتا۔ مثلاً ’’ہماری طرف توجہ کیجیے‘‘ کے لیے عربی زبان میں ایک شائستہ لفظ’اُنظرنا‘ تھا۔ مگر وہ اس کو چھوڑ کر ’راعِنا‘ کہتے۔ کیوں کہ تھوڑا سا کھینچ کر اس کو’ راعینا‘ کہہ دیا جائے تو اس کے معنی ’’ہمارے چرواہے‘‘ کے ہوجاتے ہیں ، اسی طرح کبھی الف کو دبا کر وہ اس کو راعِنَ کہتے جس کے معنیٰ احمق کے ہوتے ہیں۔ ہدایت کی گئی کہ (1)گفتگو میں صاف الفاظ استعمال کرو، مشتبہ الفاظ مت بولو جس میں کوئی برا پہلو نکل سکتا ہو 2) (جو بات کہی جائے اس کو غور سے سنو اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ (3)سوال کی کثرت آدمی کو سیدھے راستہ سے بھٹکا دیتی ہے، اس ليے سوال وجواب کے بجائے عبرت اور نصیحت کا ذہن پیدا کرو۔ (4) اپنے ایمان کی حفاظت کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی غلطی کی بنا پر تم اپنے ایمان ہی سے محروم ہو جاؤ۔ 5) (دنیا میں کسی کے پاس کوئی خیر دیکھو تو حسد اور جلن میں مبتلا نہ ہو، کیوں کہ یہ اللہ کا ایک عطیہ ہے جو اس کے فیصلہ کے تحت اس کے ایک بندے کو پہنچا ہے۔