Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُوا۟ ٱلزَّكَوٰةَ ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا۟ لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍۢ تَجِدُوهُ عِندَ ٱللَّهِ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ ﴾
“And be constant in prayer, and render the purifying dues; for, whatever good deed you send ahead for your own selves, you shall find it with God: behold, God sees all that you do.”
قرآن کی آواز اگرچہ بہت سے لوگوں کے لیے نامانوس آواز تھی۔ تاہم انھیں میں ایسے لوگ بھی تھے جو اس کو اپنے دل کی آواز پاکر اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے جارہے تھے۔ یہ صورت حال قدیم آسمانی کتابوں کی حامل قوم کے لیے ناقابلِ برداشت بن گئی۔ کیوں کہ یہ ایک ایسی چیز کی ترقی کے ہم معنی تھی جس کو وہ بے حقیقت سمجھ کر نظر انداز کيے ہوئے تھے۔ انھوں نے یہ کیا کہ ایک طرف مشرکین کو ابھار کر ان کو اسلام کے خلاف جنگ پر آمادہ کردیا۔ دوسری طرف وہ نئے اسلام لانے والوں کو طرح طرح کے شبہات اور مغالطے میں ڈالتے تاکہ وہ قرآن اور صاحب قرآن سے بد ظن ہوجائیں ، اور دوبارہ اپنے آبائی مذہب کی طرف واپس چلے جائیں ۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر ایسے لوگوں کے خلاف اشتعال پیدا ہونا فطری تھا۔ مگر اللہ نے اس سے ان کو منع فرمادیا۔ حکم ہوا کہ ان سے بحث مباحثہ یا ان کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائی موجودہ مرحلہ میں ہر گز نہ کی جائے۔ اس معاملہ میں تمام تر اللہ پر بھروسہ کیا جائے اور اس وقت کا انتظار کیا جائے جب اللہ تعالیٰ حالات میں ایسی تبدیلی کردے کہ ان کے خلاف کوئی فیصلہ کن کارروائی کرنا ممکن ہوجائے۔ بروقت مسلمانوں کو چاہيے کہ وہ صبر کریں اور نماز اورزکوۃ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائیں ۔ صبر آدمی کو اس سے بچاتاہے کہ وہ رد عمل کی نفسیات کے تحت منفی کارروائیاں کرنے لگے۔ نماز آدمی کو اللہ سے جوڑتی ہے۔ اور اپنے مال میں دوسرے بھائیوں کو حق دار بنانا وہ چیز ہے جس سے باہمی خیر خواہی اور اتحاد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ نئے اسلام لانے والوں سے وہ کہتے کہ تم کو اپنا آبائی مذہب چھوڑنا ہے تو نیا مذہب اختیار کرنے کے بجائے پہلے سے موجود آسمانی مذاہب میں سے کوئی ایک اختیار کر لو، یہودی بن جاؤ یا پھر عیسائی بن جاؤ۔ کیوں کہ جنت تو یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے ہے جو ہمیشہ سے نبیوں اور بزرگوں کی جماعت رہی ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ کسی گروہ سے وابستگی کسی کو جنت کا مستحق نہیں بناتی۔ جنت کا فیصلہ آدمی کے اپنے عمل کی بنیاد پر کیا جاتاہے، نہ کہ گروہی فضیلت کی بنیاد پر۔ احسان کے معنی ہیں کسی کام کو اچھی طرح کرنا۔ اسلام میں اچھا ہونا یہ ہے کہ اللہ کے لیے آدمی کی حوالگی اتنی کامل ہو کہ ہر دوسری چیز کی اہمیت اس کے ذہن سے حذف ہوجائے۔ گروہی تعصبات، شخصی وفاداریاں اور دنیوی مصالح کوئی بھی چیز اس کے لیے اللہ کی آواز کی طرف دوڑ پڑنے میں رکاوٹ نہ بنے۔