Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ بَدِيعُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰٓ أَمْرًۭا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ ﴾
“The Originator is He of the heavens and the earth: and when He wills a thing to be, He but says unto it, "Be" -and it is.”
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب میں تین بڑی قومیں آباد تھیں ، یہود، نصاری، اور مشرکین ۔یہود نے نبیوں اور بزرگوں سے وابستگی کو حق کا معیار بنایا۔ اس وجہ سے ان کو اپنی قوم حق پر اور دوسری قومیں باطل پر نظر آئیں ۔ نصاریٰ نے اپنے اندر یہ امتیاز دیکھا کہ اللہ نے اپنا ’’اکلوتا بیٹا‘‘ ان کے پاس بھیجا۔ مکہ کے مشرکین اپنی یہ خصوصیت سمجھتے تھے کہ وہ اللہ کے مقدس گھر کے پاسبان ہیں ۔ اس طرح ہر گروہ نے اپنے حسب حال حق وصداقت کا ایک خود ساختہ معیار بنا رکھا تھا اور جب وہ اس معیار کی روشنی میں دیکھتا تو لامحالہ اس کو اپنی ذات بر سر حق اور دوسروں کی برسر باطل نظر آتی۔ مگر ان کی عملی حالت جس چیز کا ثبوت دے رہی تھی وہ اس کے بالکل برعکس تھی۔ وہ گروہ گروہ بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے کسی کو جب بھی موقع ملتا، وہ عبادت کے لیے بنے ہوئے خدا کے گھر کو اپنے گروہ کے علاوہ دوسرے گروہ پر بند کردیتا اور اس طرح خدا کے گھر کی ویرانی کا باعث بنتا۔ عبادت خانہ تووہ مقام ہے جہاں انسان اللہ سے ڈرتے ہوئے اور کانپتے ہوئے داخل ہو۔ اگر یہ لوگ واقعۃً خدا والے ہوتے تو کیسے ممکن تھا کہ وہ عبادت کے لیے آنے والے کسی بندے کو روکیں یا اس کو ستائیں ۔ وہ تو اللہ کی عظمت کے احساس سے دبے ہوئے ہوتے، پھر ان سے اس قسم کی سرکشی کا صدور کیوں کر ہوسکتا تھا۔ انھوں نے اللہ کو انسان کے اوپر قیاس کیا۔ ایک انسان اگر مشرق میں ہو تو اسی وقت وہ مغرب میں نہیں ہوگا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا بھی اسی طرح کسی خاص سمت میں موجود ہے۔ یقیناً اللہ نے اپنی عبادت کے لیے رخ کا تعین کیا ہے مگر وہ عبادت کی تنظیمی ضرورت کی بنا پر ہے، نہ اس ليے کہ خدا اسی خاص رخ میں ملتا ہے۔ اسی طرح انسانوں پر قیاس کرتے ہوئے انھوں نے خدا کا بیٹا فرض کرلیا ۔ حالاں کہ خدا اس قسم کی چیزوں سے بلند وبرتر ہے۔ جو لوگ اس طرح خود ساختہ دین کو خدا کا دین بتائیں، ان کے لیے خدا کے یہاں رسوائی اور عذاب کے سوا اور کچھ نہیں۔