Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيرًۭا وَنَذِيرًۭا ۖ وَلَا تُسْـَٔلُ عَنْ أَصْحَٰبِ ٱلْجَحِيمِ ﴾
“Verily, We have sent thee [O Prophet] with the truth, as a bearer of glad tidings and a warner: and thou shalt not be held accountable for those who are destined for the blazing fire.”
اللہ کے وہ بندے جو اللہ کی طرف سے اس کے دین کا اعلان کرنے کے لیے آئے، ان کو ہر زمانہ میں ایک ہی قسم کے رد عمل سے سابقہ پیش آیا’’اگر تم خدا کے نمائندے ہو تو تمھارے ساتھ دنیا کے خزانے کیوں نہیں‘‘۔یہ شبہ ان لوگوں کو ہوتا جو اپنے دنیا پرستانہ مزاج کی وجہ سے مادی بڑائی کو بڑائی سمجھتے تھے۔ اس ليے وہ خدا کی نمائندگی کرنے والے میں بھی یہی بڑائی دیکھنا چاہتے تھے۔ جب داعیٔ حق کی زندگی میں ان کو اس قسم کی بڑائی دکھائی نہ دیتی تو وہ اس کا انکار کردیتے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ایک ’’معمولی آدمی‘‘ کیوں کر وہ شخص ہوسکتا ہے جس کو زمین وآسمان کے مالک نے اپنے پیغام كو انسانوں تك پهنچانے کے لیےچنا ہو۔ اللہ کے ان بندوں کی زندگی اور ان کے کلام میں اللہ اپنی نشانیوں کی صورت میں شامل ہوتا، بالفاظ دیگر معنوی بڑائیاں پوری طرح ان کے ساتھ ہوتیں۔ مگر اس قسم کی چیزیں لوگوں کو نظر نہ آتیں، اس ليے وہ ان کو ’’بڑا‘‘ ماننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتے۔ دلیل اپنی کامل صورت میں موجود ہو کر بھی ان کے ذہن کا جزء نہ بنتی۔ کیوں کہ وہ ان کے کنڈيشنڈ مائنڈکے مطابق نہ ہوتی۔ یہود ونصاریٰ قدیم زمانہ میں آسمانی مذہب کے نمائندے تھے مگر زوال کا شکار ہونے کے بعد دین ان کے لیے ایک گروہی طریقہ ہوکر رہ گیاتھا۔ وہ اپنے گروہ سے وابستہ رہنے کو دین سمجھتے اور گروہ سے الگ ہوجانے کو بے دینی ۔ ان کے گروہ میں شامل ہونا یا نہ ہونا ہی ان کے نزدیک حق اور ناحق کا معیاربن گیا تھا۔ دین جب اپنی بے آمیز صورت میں ان کے سامنے آیا تو ان کا گروہی دین داری کا مزاج اس کو قبول نہ کرسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ بے آمیز دین کو وہی اختیار کرے گا جس نے اپنی فطرت کو زندہ رکھا ہے۔ جن کی فطرت کی روشنی بجھ چکی ہے ان سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں۔ دین کو ایسے لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے کی خاطر دین کو بدلا نہیں جاسکتا۔