slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 120 من سورة سُورَةُ البَقَرَةِ

Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ ٱلْيَهُودُ وَلَا ٱلنَّصَٰرَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى ٱللَّهِ هُوَ ٱلْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ ٱتَّبَعْتَ أَهْوَآءَهُم بَعْدَ ٱلَّذِى جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا نَصِيرٍ ﴾

“For, never will the Jews be pleased with thee. nor yet the Christians, unless thou follow their own creeds. Say: "Behold, God's guidance is the only true guidance." And, indeed, if thou shouldst follow their errant views after all the knowledge that has come unto thee. thou wouldst have none to protect thee from God, and none to bring thee succour.”

📝 التفسير:

اللہ کے وہ بندے جو اللہ کی طرف سے اس کے دین کا اعلان کرنے کے لیے آئے، ان کو ہر زمانہ میں ایک ہی قسم کے رد عمل سے سابقہ پیش آیا’’اگر تم خدا کے نمائندے ہو تو تمھارے ساتھ دنیا کے خزانے کیوں نہیں‘‘۔یہ شبہ ان لوگوں کو ہوتا جو اپنے دنیا پرستانہ مزاج کی وجہ سے مادی بڑائی کو بڑائی سمجھتے تھے۔ اس ليے وہ خدا کی نمائندگی کرنے والے میں بھی یہی بڑائی دیکھنا چاہتے تھے۔ جب داعیٔ حق کی زندگی میں ان کو اس قسم کی بڑائی دکھائی نہ دیتی تو وہ اس کا انکار کردیتے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ایک ’’معمولی آدمی‘‘ کیوں کر وہ شخص ہوسکتا ہے جس کو زمین وآسمان کے مالک نے اپنے پیغام كو انسانوں تك پهنچانے کے لیےچنا ہو۔ اللہ کے ان بندوں کی زندگی اور ان کے کلام میں اللہ اپنی نشانیوں کی صورت میں شامل ہوتا، بالفاظ دیگر معنوی بڑائیاں پوری طرح ان کے ساتھ ہوتیں۔ مگر اس قسم کی چیزیں لوگوں کو نظر نہ آتیں، اس ليے وہ ان کو ’’بڑا‘‘ ماننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتے۔ دلیل اپنی کامل صورت میں موجود ہو کر بھی ان کے ذہن کا جزء نہ بنتی۔ کیوں کہ وہ ان کے کنڈيشنڈ مائنڈکے مطابق نہ ہوتی۔ یہود ونصاریٰ قدیم زمانہ میں آسمانی مذہب کے نمائندے تھے مگر زوال کا شکار ہونے کے بعد دین ان کے لیے ایک گروہی طریقہ ہوکر رہ گیاتھا۔ وہ اپنے گروہ سے وابستہ رہنے کو دین سمجھتے اور گروہ سے الگ ہوجانے کو بے دینی ۔ ان کے گروہ میں شامل ہونا یا نہ ہونا ہی ان کے نزدیک حق اور ناحق کا معیاربن گیا تھا۔ دین جب اپنی بے آمیز صورت میں ان کے سامنے آیا تو ان کا گروہی دین داری کا مزاج اس کو قبول نہ کرسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ بے آمیز دین کو وہی اختیار کرے گا جس نے اپنی فطرت کو زندہ رکھا ہے۔ جن کی فطرت کی روشنی بجھ چکی ہے ان سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں۔ دین کو ایسے لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے کی خاطر دین کو بدلا نہیں جاسکتا۔