Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَٱتَّقُوا۟ يَوْمًۭا لَّا تَجْزِى نَفْسٌ عَن نَّفْسٍۢ شَيْـًۭٔا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌۭ وَلَا تَنفَعُهَا شَفَٰعَةٌۭ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ﴾
“and remain conscious of [the coming of] a Day when no human being shall in the least avail another, nor shall ransom be accepted from any of them, nor shall intercession be of any use to them, and none shall be succoured.”
بنی اسرائیل کو اس کارِ خاص کے لیے چنا گیا تھا کہ وہ انسانوں کو اللہ کی طرف بلائیں اور ان کو اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ ان کے اعمال کے بارے میں ان کا مالک ان سے سوال کرنے والا ہے۔ اس کام کی رہنمائی کے لیے ان کے درمیان مسلسل پیغمبر آتے رہے۔ حضرت ابراہیم، یعقوب، یوسف، موسیٰ، داؤد، سلیمان، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ علیہم السلام وغیرہ۔ مگر بعد کے زمانہ میں جب بنی اسرائیل پر زوال آیا تو انھوں نے اس منصبی فضیلت کو نسلی اور گروہی فضیلت کے معنی میں لے لیا۔ اور اس طرح اس کی بابت اپنے استحقاق کو کھو دیا۔ اسماعیلی خاندان میں نبی عربی کا آنا دراصل بنی اسرائیل کی مقام فضیلت سے معزولی اور اس کی جگہ بنی اسماعیل کے تقرر کا اعلان تھا۔ بنی سرائیل میں جو لوگ فی الواقع خدا پرست تھے ان کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ نبی عربی جو کلام پیش کررہے ہیں وہ خدا کی طرف سے آیا ہوا کلام ہے۔ مگر جو لوگ گروہی تعصبات کو دین بنائے ہوئے تھے ان کے لیے اپنے سے باہر کسی فضیلت کا اعتراف کرنا ممکن نہ ہوسکا۔ پیغمبر عربی کے ذریعہ ان کو متنبہ کیاگیا کہ یاد رکھو آخرت میں حقیقی ایمان اور سچے عمل کے سوا کسی بھی چیز کی کوئی قیمت نہ ہوگی۔ دنیا میں ایک شخص دوسرے شخص کا بار اپنے سر لے لیتاہے۔ کسی معاملہ میں کسی کی سفارش کام آجاتی ہے۔ کبھی معاوضہ دے کر آدمی چھوٹ جاتا ہے۔ کبھی کوئی مددگار مل جاتا ہے جو پشت پناہی کرکے بچالیتاہے۔ مگر آخرت میں اس قسم کی کوئی چیز کسی کے کام آنے والی نہیں۔ آخرت کسی گروہ کی نسلی وراثت نہیں، وہ اللہ کے بے لاگ انصاف کا دن ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کو جو درجۂ فضیلت ملا اس کا فیصلہ اس وقت کیاگیا جب وہ کڑی جانچ میں خدا کے سچے فرماں بردار ثابت ہوئے۔ اللہ کی یہی سنت ان کی نسل کے بارے میں بھی ہے کہ جو عمل میں پورا اترے گا وہ اس وعدۂ الٰہی میں شریک ہوگا۔ اور جو عمل کے ترازو پر اپنے کو سچا ثابت نہ کرسکے اس کا وہی انجام ہوگا جو اس قسم کے دوسرے مجرمین کے لیے اللہ کے یہاں مقدر ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ کو نہایت کڑی آزمائشوں کے بعد پیشوائی کا مقام دیاگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ امامت و قیادت کے منصب کا استحقاق قربانیوں کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ قربانی کی قیمت پر کسی مقصد کو اختیار کرنے والا اس مقصد کی راہ میں سب سے آگے ہوتا ہے۔ اس ليے قدرتی طورپر وہی اس کا قائد بنتا ہے۔