Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ رَبَّنَا وَٱبْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًۭا مِّنْهُمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْهِمْ ءَايَٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ﴾
“"O our Sustainer! Raise up from the midst of our off spring an apostle from among themselves, who shall convey unto them Thy messages, and impart unto them revelation as well as wisdom, and cause them to grow in purity: for, verily, Thou alone art almighty, truly wise!"”
اللہ کا یہ فیصلہ تھا کہ وہ حجاز کو اسلام کی دعوت کا عالمی مرکز بنائے۔ اس مرکز کے قیام اور انتظام کے لیے حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کا انتخاب ہوا۔ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ کی زبان سے جو کلمات نکل رہے تھے وہ ایک اعتبار سے دعا تھے اور دوسرے اعتبار سے وہ دو روحوں کا اپنے آپ کو اللہ کے منصوبے میں دے دینے کا اعلان تھا۔ ایسی دعا خود مطلوب الٰہی ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ پوری طرح قبول ہوئی۔ عرب کے خشک بیابان سے اسلام کا ابدی چشمہ پھوٹ نکلا۔ بنی اسماعیل کے دل اللہ تعالیٰ نے خصوصی طورپر اپنے دین کی خدمت کے لیے نرم کرديے۔ ان کے اندر سے ایک طاقت ور اسلامی دعوت برپا ہوئی۔ ان کے ذریعہ سے اللہ نے اپنے بندوں کو وہ طریقے بتائے جن سے وہ خوش ہوتا ہے اور اپنی رحمت کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ پھر انھیں کے اندر سے اس آخری رسول کی بعثت ہوئی جس نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ کار نبوت کو ایک مکمل تاریخی نمونہ کی صورت میں قائم کردیا۔ نبی کا پہلا کام تلاوت آیات ہے۔ آیت کے معنی نشانی کے ہیں۔ یعنی وہ چیز جو کسی چیز کے اوپر دلیل بنے۔ انسان کی فطرت میں اور باہر کی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کی بے شمار نشانیاں رکھ دی ہیں۔ یہ اشارات کی صورت میں ہیں۔ پیغمبر ان اشارات کو کھولتا ہے۔ وہ آدمی کو وہ نگاہ دیتا ہے جس سے وہ ہرچیز میں اپنے رب کا جلوہ دیکھنے لگے ۔ کتاب سے مراد قرآن ہے۔ نبی کا دوسرا کام یہ ہے کہ وہ اللہ کی وحی کا مہبط بنتا ہے اور اس کو خدا سے لے کر انسان تک پہنچاتا ہے۔ حکمت کا مطلب ہے بصیرت۔ جب آدمی خدا کی نشانیوں کو دیکھنے کی نظر پیدا کر لیتا ہے، جب وہ اپنے ذہن کو قرآن کی تعلیمات میں ڈھال لیتاہےتو اس کے اندر ایک فکری روشنی جل اٹھتی ہے ۔ وہ اپنے آپ کو حقیقت اعلیٰ کے ہم شعور بنالیتا ہے۔ وہ ہر معاملہ میں اس صحیح فیصلہ تک پہنچ جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ تزکیہ کا مطلب ہے کسی چیز کو غیر موافق عناصر سے پاک کردینا تاکہ وہ موافق فضا میں اپنے فطری کمال کو پہنچ سکے۔ نبی کی آخری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسے انسان تیار ہوں جن کے سینے اللہ کی عقیدت کے سوا ہر عقیدت سے خالی ہوں۔ ایسی روحیں وجود میں آئیں جو نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہوں، ایسے افراد پیدا ہوں جو کائنات سے وہ ربانی رزق پاسکیں، جو اللہ نے اپنے مومن بندوں کے لیے رکھ دیا ہے۔