Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِذْ قَالَ لَهُۥ رَبُّهُۥٓ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴾
“When his Sustainer said to him, "Surrender thyself unto Me!" - he answered, "I have surrendered myself unto [Thee,] the Sustainer of all the worlds."”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت عین وہی تھی جو حضرت ابراہیم کی دعوت تھی۔ مگر یہود، جو حضرت ابراہیم کا پیرو ہونے پر فخر کرتے تھے، آپ کی دعوت کے سب سے بڑے مخالف بن گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی جس دین ابراہیمی کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے وہ ’’اسلام‘‘ تھا۔ یعنی اللہ کے لیے کامل حوالگی و سپردگی۔ قرآن کے مطابق یہی حضرت ابراہیم کا دین تھا اور اپنی اولاد کو انہوں نے اسی کی وصیت کی۔ اس کے برعکس یہود نے حضرت ابراہیم کی طرف جودین منسوب کررکھا تھا اس میں حوالگی وسپردگی کا کوئی سوال نہ تھا۔ اس میں خواہش پرستی کی زندگی گزارتے ہوئے محض سستے تخیلات کے تحت جنت کی ضمانت حاصل ہوجاتی تھی۔ پیغمبر عربی کے لائے ہوئے دین میں نجات کا دارومدار تمام تر عمل پر تھا، جب کہ یہود نے ’’اللہ کے مقبول بندوں ‘‘ کی جماعت سے وابستگی اور عقیدت کو نجات کے لیے کافی سمجھ لیا تھا۔ اوّل الذکر کے نزدیک دین آسمانی ہدایت کا نام تھا اور ثانی الذکر کے نزدیک محض ایک گروہی مجموعہ کا جو نسلی روایات اور قومی تخیلات کے تحت ایک خاص صورت میں بن گیا تھا۔ ماضی یا حال کے بزرگوں سے اپنے کو منسوب کرکے یہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ ہمارا انجام بھی انھیں کے ساتھ ہوگا۔ ہمارے عمل کی کمی ان کے عمل کی زیادتی سے پوری ہوجائے گی۔ یہود اس خوش فہمی کو یہاں تک لے گئے کہ انھوں نے نسلی نجات کا عقیدہ وضع کرلیا۔ انھوں نے اپنی تمام امیدیں اپنے بزرگوں کے تقدس پر قائم کرلیں ۔ مگر یہ نفسیاتی فریب کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ہر ایک كو وہی ملے گا جو اس نے کیا۔ ایک سے نہ دوسرے کے جرائم کی پوچھ ہوگی اور نہ ایک کودوسرے کی نیکیوں میں سے حصہ ملے گا۔ ہر ایک اپنے کيے کے مطابق اللہ کے یہاں بدلہ پائے گا۔ ’’تم نہ مرنا مگر اسلام پر‘‘ یعنی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرنے میں رکاوٹیں آئیں گی۔ تمھاری تمناؤں کی عمارت گرے گی۔ پھر بھی تم آخر وقت تک اس پر قائم رہنا۔