Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ تِلْكَ أُمَّةٌۭ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْـَٔلُونَ عَمَّا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴾
“"Now those people have passed away; unto them shall be accounted what they have earned, and unto you, what you have earned; and you will not be judged on the strength of what they did."”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دین کی طرف بلاتے تھے وہ وہی ابراہیمی دین تھا جس سے اہل کتاب اپنے کو منسوب کيے ہوئے تھے۔ پھر وہ آپ کے مخالف کیوں ہوگئے۔ وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی ؐکی دعوت کے مطابق، دین یہ تھا کہ آدمی اپنی زندگی کو اللہ کے رنگ میں رنگ لے، وہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اللہ والا بن جائے۔ اس کے برعکس اہل کتاب کے یہاں دین بس ایک قومی فخر کے نشان کے طورپر باقی رہ گیا تھا۔ پیغمبر عربی کی دعوت سے ان کی پُرفخر نفسیات پر زد پڑتی تھی۔، اس ليے وہ آپ کے دشمن بن گئے۔ جو لوگ گروہی فضیلت کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ اپنے سے باہر کسی صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ اپنے گروہ کے پیغمبرانِ خدا کو تو مانیں گے مگر اسی خدا کا ایک پیغمبراُن کے گروہ سے باہر آئے تو وہ اس کا انکار کردیں گے۔ دین کے نام پر وہ جس چیز سے واقف ہیں وہ صرف گروہ پرستی ہے، اس ليے وہی شخصیتیں ان کو عظیم نظر آتی ہیں جو ان کے اپنے گروہ سے تعلق رکھتی ہوں ، مگر جس شخص کے لیے دین خدا پرستی کا نام ہو وہ خدا کی طرف سے آنے والی ہر آواز کو پہچان لے گا اور اس پر لبیک کہے گا۔ یہود کے علما کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ پیغمبر عربی اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کی دعوت سچی خدا پرستی کی دعوت ہے،مگر اپنی بڑائی کو قائم رکھنے کی خاطر انھوں نے لوگوں کے سامنے ایک ایسی حقیقت کا اعلان نہیں کیا جس کا اعلان کرنا ان کے اوپر خدا کی طرف سے فرض کیا گیا تھا۔ ’’پچھلے لوگوں کو ان کی کمائی کا بدلہ ملے گا اور اگلے لوگوں کو ان کی کمائی کا‘‘ — اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے معاملہ میں وراثت نہیں ۔پچھلی قومیں ، مثلاً یہود، اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کے پچھلے بزرگوں کی نیکیوں کا ثواب ان کے بعد کے لوگوں کو بھی پہنچتا ہے۔ اسی طرح عیسائیوں نے یہ سمجھ لیا کہ گناہ پچھلی نسل سے اگلی نسل کو وراثۃً منتقل ہوتا ہے۔ مگر اس قسم کے عقیدے بالکل بے اصل ہیں ۔ خدا کے یہاں ہر آدمی کو جو کچھ ملے گا، اپنے ذاتی عمل کی بنیاد پر ملے گا، نہ کہ کسی دوسرے کے عمل کی بنیاد پر۔ ’’اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ راہ یاب ہوئے‘‘— گویا صحابہ کرام اپنے زمانہ میں جس ڈھنگ پرایمان لائے تھے وہی وہ ایمان ہے جو اللہ کے یہاں اصلاً معتبر ہے۔ صحابۂ کرام کے زمانہ میں صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف قدیم انبیاء تھے جن کی حیثیت تاریخی طورپر مسلّم ہوچکی تھی دوسری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو ابھی اپنی تاریخ کے آغاز میں تھے۔ آپ کی ذات کے گرد ابھی تک تاریخی عظمتیں جمع نہیں ہوئی تھیں اس کے باوجود انھوں نے آپ کو پہچانا اور آپ پر ایمان لائے۔ گویا اللہ کے نزدیک حق کا وہ اعتراف معتبر ہے جب کہ آدمی نے حق کو مجرد سطح پر دیکھ کر اسے مانا ہو۔ حق جب قومی وراثت بن جائے یا تاریخی عمل کے نتیجہ میں اس کے گرد عظمت کے مینار کھڑے ہوچکے ہوں تو حق کو ماننا حق کو ماننا نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی چیز کو ماننا ہوتا ہے جو قومی فخر اور تاریخی تقاضا بن چکی ہو۔