slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 144 من سورة سُورَةُ البَقَرَةِ

Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِى ٱلسَّمَآءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةًۭ تَرْضَىٰهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا۟ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُۥ ۗ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَٰفِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ ﴾

“We have seen thee [O Prophet] often turn thy face towards heaven [for guidance]: and now We shall indeed make thee turn in prayer in a direction which will fulfil thy desire. Turn, then, thy face towards the Inviolable House of Worship; and wherever you all may be, turn your faces towards it [in prayer]. And, verily, those who have been vouchsafed revelation aforetime know well that this [commandment] comes in truth from their Sustainer; and God is not unaware of what they do.”

📝 التفسير:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ جن امور میں ابھی وحی نہ آئی ہو ان میں آپ پچھلے انبیاء کے طریقےکی پیروی کرتے تھے۔ اسی بنا پر آپ نے ابتداميں بیت المقدس کو قبلہ بنا لیا تھا جو حضرت سلیمان کے زمانہ سے بنی اسرائیل کے پیغمبروں کا قبلہ رہا ہے۔ یہود کو جب اللہ تعالیٰ نے دین کي امامت وپیشوائی سے معزول کیا تو اس کے بعد یہ بھی ضروری ہوگیا کہ دین کو زوال یافتہ روایات سے جدا کردیا جائے تاکہ خدا کا دین ہر اعتبار سے اپنی خالص شکل میں نمایاں ہوسکے۔ اسی مصلحت کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبدیلیٔ قبلہ کے حکم کا انتظار رہتا تھا۔ چنانچہ ہجرت کے دوسرے سال یہ حکم آگیا۔ بنی اسرائیل کے انبیاء جو یہود کو خبر دار کرنے کے لیے آئے، وہ پہلے ہی اس فیصلۂ الٰہی کی بابت یہود کو بتا چکے تھے اور ان کے علما اس معاملہ کو اچھی طرح جانتے تھے۔ تاہم ان میں صرف چند لوگ (جیسے عبد اللہ بن سلّام اور مخيریق رضی اللہ عنہما) ایسے نکلے جنھوں نے آپ کی تصدیق کی اور اس بات کا اقرار کیا کہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سچے دین کا اظہار فرمایا ہے۔ان کے نہ ماننے کی وجہ محض ان کی خواہش پرستی تھی۔ وہ جن گروہی خوش خیالیوں میں جی رہے تھے، ان سے وہ نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ اور جو انکار محض خواہش پرستی کی بنا پر پیداہو اس کو توڑنے میں کبھی کوئی دلیل کامیاب نہیں ہوتی۔ ایسا آدمی دلائل کے انکار سے اپنے ليے وہ رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے جو اس کے خالق نے صرف دلائل کے اعتراف میں رکھا ہے۔ اللہ کی طرف سے جب کسی امرِ حق کا اعلان ہوتاہے تو وہ ایسے قطعی دلائل کے ساتھ ہوتا ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ اس کی صداقت کو پہچاننے سے عاجز نہ رہے۔ایسی حالت میں جو لوگ شبہ میں پڑیں وہ صرف یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ خدا سے آشنا نہ تھے۔ اس ليے وہ خدا کی بولی کو پہچان نہ سکے۔ اسی طرح وہ لوگ جو حق کے خلاف کچھ الفاظ بول کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے حق کا اعتراف نہ کرنے کے لیے مضبوط استدلالی سہارے دریافت کرليے ہیں، بہت جلد ان کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ محض فرضی سہارے تھے جو ان کے نفس نے اپنی جھوٹی تسکین کے لیے وضع کرليے تھے۔