Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَٱذْكُرُونِىٓ أَذْكُرْكُمْ وَٱشْكُرُوا۟ لِى وَلَا تَكْفُرُونِ ﴾
“so remember Me, and I shall remember you; and be grateful unto Me, and deny Me not.”
کعبہ کو قبلہ مقرر کیاگیا تو زوال یافتہ ذہن رکھنے والے یہود یوں اور عیسائیوں نے اس قسم کی بحثیں چھیڑ دیں کہ مغرب کی سمت خدا کی سمت ہے یا مشرق کی سمت۔ وہ اس مسئلہ کو بس رخ بندی کے مسئلہ کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے۔مگر یہ ان کی ناسمجھی تھی۔ کعبہ کو قبلہ مقرر کرنے کا معاملہ سادہ طورپر ایک عبادتی رخ مقرر کرنے کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک علامت تھی کہ اللہ کے بندوں کے لیے اس سب سے بڑے خیر کے اترنے کا وقت آگیا ہے جس کا فیصلہ بہت پہلے کیا جاچکا تھا۔ یہ ابراہیم واسماعیل (علیہما السلام) کی دعا کے مطابق نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہے۔ اب وہ آنے والا آگیاہے جو انسان کے اوپر اللہ کی ابدی ہدایت کا دروازہ کھولے اور اس کی نعمتِ ہدایت کو آخری حد تک کامل کردے — جو دین اللہ کی طرف سے بار بار بھیجا جاتا رہا مگر انسانوں کی غفلت وسرکشی سے ضائع ہوتا رہا، اس کو اس کی كامل شكل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردے۔ خدا کا دین جو اب تک محض روایتی افسانہ بنا ہوا تھا اس کو ایک حقیقی واقعہ کی حیثیت سے انسانی تاریخ میں شامل کردے۔ وہ دین جس کا کوئی مستقل نمونہ قائم نہیں ہوسکا تھا اس کو ایک زندہ عملی نمونے کی حیثیت سے لوگوں کے سامنے رکھ دے۔ یہ ہدایت الٰہی کی تکمیل کا معاملہ ہے، نہ کہ مختلف سمتوں میں سے کوئی زیادہ ’’مقدس سمت‘‘ مقرر کرنے کا۔ کعبہ کی تعمیر کے وقت ہی یہ مقدر ہوچکا تھا کہ آخری رسول کے ذریعہ جس دین کا ظہور ہوگا اس کا مرکز کعبہ ہوگا ۔پچھلے انبیاء لوگوں کو مسلسل اس کی خبر دیتے رہے۔ اس طرح اللہ کی طرف سے کعبہ کو تمام قوموں کے لیے قبلہ مقرر کرنا گویا نبی آخر الزماں کی حیثیت کو ثابت شدہ بنانا تھا۔ اب جو سنجیدہ لوگ ہیں ان کے لیے اللہ کا یہ اعلان آخری حجت ہے، اور جو لوگ آخرت سے بے خوف ہیں ان کی زبان کوکوئی بھی چیز روکنے والی ثابت نہیں ہوسکتی۔ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہی ہدایت کا راستہ پاتے ہیں۔ اللہ کو یاد رکھنا ہی کسی کو اس کا مستحق بناتا ہے کہ اللہ اس کو یاد رکھے۔ اللہ سے خوف رکھنا ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ اللہ اس کو دوسری تمام چیزوں سے بےخوف کردے۔