Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَا تَقُولُوا۟ لِمَن يُقْتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمْوَٰتٌۢ ۚ بَلْ أَحْيَآءٌۭ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ﴾
“And say not of those who are slain in God's cause, "They are dead": nay, they are alive, but you perceive it not.”
دین یہ ہے کہ آدمی اپنے خالق کو اس طرح پالے کہ اس کی یاد میں اور اس کی شکر گزاری میں اس کے صبح و شام بسر ہونے لگیں۔ اس قسم کی زندگی ہی تمام خوشیوں اور لذتوں کا خزانہ ہے۔ مگر یہ خوشیاں اور لذتیں اپني حقیقی صورت میں آدمی کو صرف آخرت میں ملیں گی۔ موجودہ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے انعام کے لیے نہیں بنایا بلکہ امتحان کے لیے بنایا ہے، یہاں ایسے حالات رکھے گئے ہیں کہ خداپرستی کی راہ میں آدمی کے لیے رکاوٹیں پڑیں تاکہ معلوم ہو کہ کون اپنے ايمان كے اظهار میں سنجیدہ ہے اور کون سنجیدہ نہیں — نفس کے محرکات، بیوی بچوں کے تقاضے، دنیا کی مصلحتیں، شیطان کے وسوسے، سماجی حالات کا دباؤ، وغيره۔ یہ چیزیں فتنہ کی صورت میں آدمی کو گھیرے رہتی ہیں۔ آدمی کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ان فتنوں کو پہچانے اور ان سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے ذکر وشکر کے تقاضے پورا کرے۔ ان امتحانی مشکلات کے مقابلہ میں کامیابی کا واحد ذریعہ نماز اور صبر ہے۔ یعنی اللہ سے لپٹنا اور ہر قسم کی ناخوش گواریوں کو برداشت کرتے ہوئے بالارادہ حق کے راستہ پر جمے رہنا۔ جو لوگ نا موافق حالات سامنے آنے کے باوجود نہ بدکیں اور بظاہر غیر اللہ میں نفع دیکھتے ہوئے اللہ کے ساتھ اپنے کو باندھے رہیں وہی وہ لوگ ہیں جو سنتِ الٰہی کے مطابق کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے۔ حق کی راہ میں مشکلات ومصائب کا دوسرا سبب مومن کا تبلیغی کردار ہے۔ تبلیغ ودعوت کا کام نصیحت اور تنقید کا کام ہے۔ اور نصیحت اور تنقید ہمیشہ آدمی کے لیے سب سے زیادہ ناپسنديده چیز رہی ہے، ان میں بھی نصیحت سننے کے لیے سب سے زیادہ حساس وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دنیا کے کاروبار کو دین کے نام پر کررہے ہوں۔داعی کی ذات اور اس کے پیغام میں ایسے تمام لوگوں کو اپنی حیثیت کی نفی (negation)نظر آنے لگتی ہے۔ داعی کا وجود ایک ایسی ترازو بن جاتاہے جس پر ہر آدمی تُل رہا ہو۔ ا س کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ داعی بننا بھِڑ کے چھۃ میں ہاتھ ڈالنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ ایسا آدمی اپنے ماحول کے اندر بے جگہ کردیا جاتا ہے۔ اس کی معاشیات برباد ہوجاتی ہیں۔ اس کی ترقیوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ حتی کہ اس کی جان تک خطرہ میں پڑجاتی ہے۔ مگر وہی آدمی راہ پر ہے جس کو بے راہ بتا کر ستایا جائے۔ وہی پاتا ہے جو اللہ کی راہ میں کھوئے۔ وہی جی رہا ہے جو اللہ کی راہ میں اپنی جان دے دے۔آخرت کی جنت اسی کے لیے ہے جو اللہ کی خاطر دنیا کی جنت سے محروم ہوگیا ہو۔