Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَندَادًۭا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ ٱللَّهِ ۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَشَدُّ حُبًّۭا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓا۟ إِذْ يَرَوْنَ ٱلْعَذَابَ أَنَّ ٱلْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًۭا وَأَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعَذَابِ ﴾
“And yet there are people who choose to believe in beings that allegedly rival God, loving them as [only] God should be loved: whereas those who have attained to faith love God more than all else. If they who are bent on evildoing could but see - as see they will when they are made to suffer [on Resurrection Day] -that all might belongs to God alone, and that God is severe in [meting out] punishment!”
آدمی اپنی فطرت اور اپنے حالات کے لحاظ سے ایک ایسی مخلوق ہے جو ہمیشہ ایک خارجی سہارا چاہتا ہے، ایک ایسی ہستی جو اس کی کمیوں کی تلافی کرے اور اس کے لیے اعتماد ویقین کی بنیاد ہو۔ کسی کو اس حیثیت سے اپنی زندگی میں شامل کرنا اس کو اپنا معبود بنانا ہے۔ جب آدمی کسی ہستی کو اپنا معبود بناتا ہے تو اس کے بعد لازمی طورپر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے محبت وعقیدت کے جذبات اس کے لیے خاص ہوجاتے ہیں۔ آدمی عین اپنی فطرت کے لحاظ سے مجبور ہے کہ کسی سے حُبّ شدید کرے، اور جس سے کوئی حب شدید کرے وہی اس کا معبود ہے۔ موجودہ دنیا میں چوں کہ خدا نظرنہیں آتاہے اس ليے ظاہر پرست انسان عام طور پرنظر آنے والی ہستیوں میں سے کسی ہستی کو وہ مقام دے دیتاہے جو دراصل خدا کو دینا چاہيے۔ یہ ہستیاں اکثر وہ سردار یا پیشوا ہوتے ہیں جو کسی ظاہری خصوصیت کی بنا پر لوگوں کا مرجع بن جاتے ہیں۔ آدمی کی فطرت کا خلا جو حقیقۃ ًاس ليے تھا کہ اس کو رب العالمین سے پُرکیا جائے وہاں وہ کسی سردار یا پیشوا کو بٹھالیتا ہے۔ ایسا اس ليے ہوتا ہے کہ کسی انسان کے گرد کچھ ظاہری ر ونق دیکھ کر لوگ اس کو ’’بڑا‘‘ سمجھ لیتے ہیں۔ کوئی اپنے غیر معمولی شخصی اوصاف سے لوگوں کو متاثر کرلیتاہے۔ کوئی کسی گدی پر بیٹھ کر سیکڑوں سال کی روایات کا وارث بن جاتاہے۔ کسی کے یہاں انسانوں کی بھیڑ دیکھ کر لوگوں کو غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ وہ عام انسانوں سے بلند تر کوئی انسان ہے۔ کسی کے گرد پُراسرار کہانیوں کا ہالہ تیار ہوجاتا ہے اور سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ غیر معمولی قوتوں کا حامل ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خدا کی اس کائنات میں خدا کے سوا کسی کو کوئی زور یا بڑائی حاصل نہیں۔ انسان کو خدا کا درجہ دینے کا کاروبار اسی وقت تک ہے، جب تک خدا ظاہر نہیںہوتا۔ خدا کے ظاہر ہوتے ہی صورت حال اس قدر بدل جائے گی کہ ’’بڑے‘‘ اپنے ’’چھوٹوں‘‘ سے بھاگنا چاہیں گے اور چھوٹے اپنے ’’بڑوں‘‘ سے۔ وہ وابستگی جس پر آدمی دنیا میں فخر کرتاتھا، جس سے وفاداری اور شیفتگی دکھا کر آدمی سمجھتا تھا کہ ا س نے سب سے بڑی چٹان کو پکڑ رکھا ہے وہ آخرت کے دن اس طرح بے معنی ثابت ہوگی جیسے اس کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو۔آدمی اپنی گزری ہوئی زندگی کو حسرت کے ساتھ دیکھے گا اور کچھ نہ کرسکے گا۔