Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِٱلسُّوٓءِ وَٱلْفَحْشَآءِ وَأَن تَقُولُوا۟ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾
“and bids you only to do evil, and to commit deeds of abomination, and to attribute unto God something of which you have no knowledge.”
شرک کیا ہے، جذباتِ عبودیت کی تسکین کے لیے خدا کے سوا کوئی دوسرا مرکز بنالینا۔ خدا انسان کی سب سے بڑی اور لازمی ضرورت ہے۔ خدا کی طلب انسانی فطرت میں اس طرح بسی ہوئی ہے کہ کوئی شخص خدا کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انسان کی گم راہی خدا کو چھوڑنا نہیں ہے بلکہ اصلی خدا کی جگہ کسی فرضی خدا کو اپنا خدا بنا لینا ہے۔ اس ليے شریعت میں ہر اس چیز کو حرام قرار دیاگیا ہے جو کسی بھی درجہ میں آدمی کی فطری طلب کو اللہ کے سوا کسی اور کی طرف موڑ دینے والی ہو۔ بت پرست قومیں بتوں کے نام پر جانور چھوڑتی ہیں اور ان جانوروں سے نفع اٹھانا حرام سمجھتی ہیں۔ اس طرح کسی چیز کو اپنے ليے حرام کرلینا محض ایک سادہ قانونی معاملہ نہیں بلکہ یہ خدا كے دين كے بجائےايك خودساخته دين ايجاد كرناہے۔ کیوں کہ جب ایک چیز کو اس طرح حرام ٹھہرایا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کسی خود ساختہ عقیدہ کی وجہ سے اس کو مقدس سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ خدا کے حقوق میں غیر خدا کو ساجھی بنانا ہے، یہ احترام وتقدس کے ان فطری جذبات کو تقسیم کرنا ہے جو صرف خدا کے لیے ہیں اور جن کو صرف خدا ہی کے لیے ہونا چاہيے۔ شیطان اس قسم کے رواج اس ليے ڈالتا ہے تاکہ وه آدمی کے اندر چھپے ہوئے استعجاب وتقدس کے جذبات کو مختلف سمتوں میں بانٹ کر اللہ کے ساتھ اس کے تعلق کو کمزور کردے۔ ایک بار جب کسی غیر اللہ کو مقدس مان لیا جائے تو انسان کی توہم پرستی اس میں نئی نئی برائیاں پیدا کرتی رہتی ہے۔ ایک ’’جانور‘‘ کو ان پُراسرار اوصاف کا حامل گمان کرلیا جاتا ہے جو صرف خدا کے لیے خاص ہیں۔ اس کو خدا کی قربت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس سے برکت اور کار برآری کی امید کی جاتی ہے۔ یہ چیز جب اگلی نسلوں تک پہنچتی ہے تو وہ اس کو آباواجداد کی مقدس سنت سمجھ کر اس طرح پکڑ لیتی ہیں کہ اب اس پر کسی قسم کا غور وفکر ممکن نہیں ہوتا۔ حتی کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ لوگ دلیل کی زبان سمجھنے سے اتنا زیادہ عاری ہوجاتے ہیں گویا کہ ان کے پاس نہ آنکھ اور کان ہیں جن سے وہ دیکھیں اور سنیں اور نہ ان کے پاس دماغ ہے جس سے وہ کسی بات کو سمجھیں۔