Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ۞ لَّيْسَ ٱلْبِرَّ أَن تُوَلُّوا۟ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ ٱلْبِرَّ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلْكِتَٰبِ وَٱلنَّبِيِّۦنَ وَءَاتَى ٱلْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَٰمَىٰ وَٱلْمَسَٰكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآئِلِينَ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٰةَ وَٱلْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَٰهَدُوا۟ ۖ وَٱلصَّٰبِرِينَ فِى ٱلْبَأْسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلْبَأْسِ ۗ أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُوا۟ ۖ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُتَّقُونَ ﴾
“True piety does not consist in turning your faces towards the east or the west - but truly pious is he who believes in God, and the Last Day; and the angels, and revelation, and the prophets; and spends his substance - however much he himself may cherish - it - upon his near of kin, and the orphans, and the needy, and the wayfarer, and the beggars, and for the freeing of human beings from bondage; and is constant in prayer, and renders the purifying dues; and [truly pious are] they who keep their promises whenever they promise, and are patient in misfortune and hardship and in time of peril: it is they that have proved themselves true, and it is they, they who are conscious of God.”
یہود نے مغرب کو اپنا قبلۂ عبادت بنایا تھا اور نصاریٰ نے مشرق کو۔ دونوں اپنے اپنے قبلے كي سمت کو مقدس سمجھتے تھے۔ دونوں کو بھروسہ تھا کہ انھوں نے خدا کی مقدس سمت کو اپنا قبلہ بنا کر خدا کے یہاں اپنا درجہ محفوظ کرلیا ہے۔ مگر خدا پرستی یہ نہیں ہے کہ آدمی کسی ’’مقدس ستون‘‘ کو تھام لے، خدا پرستی یہ ہے کہ آدمی خود اللہ کے دامن کو پکڑ لے۔ دینی عمل کی اگرچہ ایک ظاہری صورت ہوتی ہے۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ اس اللہ کو پالینا ہے جو زمین وآسمان کا نور ہے، جو آدمی کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ اللہ کے یہاں جو چیز کسی کو مقبول بناتی ہے وہ کسی قسم کی ظاہری چیزیں نہیں ہیں بلکہ وہ عمل ہے جوآدمی اپنے پورے وجود کے ساتھ خالص اللہ کے لیے کرتا ہے۔ اللہ کا مقبول بندہ وہ ہے جو اللہ کو اس طرح پالے کہ اللہ اس کی پوری ہستی میں اترجائے۔ وہ آدمی کے شعور میں شامل ہوجائے۔ وہ اس کے مال ودولت کا مالک بن جائے۔ وہ اس کی یادوں میں سما جائے۔ وہ اس کے کردار پر چھا جائے۔ آدمی اپنے رب کو اس طرح پکڑ لے کہ سخت ترین وقتوں میں بھی خداکی رسّی اس کے ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ اللہ کا حق اس کی سچی وفاداری سے ادا ہوتا ہے، نہ کہ محض اِدھر یااُدھر رُخ کرلینے سے۔ اللہ پر ایمان لانا یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اپنا سب کچھ بنا لے۔ آخرت کے دن پر ایمان یہ ہے کہ آدمی دنیا کے بجائے آخرت کو زندگی کا اصل مسئلہ سمجھنے لگے۔ فرشتوں پر ایمان یہ ہے کہ وہ خدا کے ان کارندوں کو مانے جو خدا کے حکم کے تحت دنیا کا انتظام چلارہے ہیں۔ کتاب پر ایمان یہ ہے کہ آدمی یہ یقین کرے کہ اللہ نے انسان کے لیے اپنا ہدایت نامہ بھیجا ہے جس کی اُسے لازماً پابندی کرنی ہے۔ پیغمبروں پر ایمان یہ ہے کہ اللہ کے ان بندوں کو اللہ کا نمائندہ تسلیم کیا جائے جن کو اللہ نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے چنا۔ پھر یہ ایمانیات آدمی کے اندر اتنی گہری اتر جائیں کہ وہ اللہ کی محبت اور شوق میںاپنا مال ضرورت مندوں کو دے اور انسانوں کو مصیبت سے چھڑائے۔ نماز قائم کرنا اللہ کے آگے ہمہ تن جھک جانا ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنا اپنے مال میں خداکے مستقل حصے کا اقرار کرنا ہے۔ ایسا بندہ جب کوئی عہد کرتا ہے تو اس کے بعد وہ اس سے پھرنا نہیں جانتا۔ کیوں کہ وہ ہر عہد کو خدا سے کیا ہوا عہد سمجھتاہے۔ اس کو اللہ کے اوپر اتنا بھروسہ ہوجاتا ہے کہ تنگی اور مصیبت ہو یا جنگ کی نوبت آجائے، ہر حال میں وہ خدا پرستی کے راستہ پر جما رہتا ہے۔ یہ اوصاف جس کے اندر پیدا ہوجائیں وہی سچا مومن ہے اور سچا مومن اللہ سے اندیشہ رکھنے والا ہوتاہے، نہ کہ کسی جھوٹے سہارے پر اعتماد کرکے اس سے نڈر ہوجانے والا۔