Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴾
“O YOU who have attained to faith! Fasting is ordained for you as it was ordained for those before you, so that you might remain conscious of God:”
روزہ بیک وقت دو چیزوں کی تربیت ہے۔ ایک شکر، دوسرے تقویٰ۔ کھانا اور پانی اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ مگر عام حالات میں آدمی کو اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ روزہ میں جب وہ دن بھر ان چیزوں سے رکا رہتا ہے اور سورج ڈوبنے کے بعد شدید بھوک پیاس کی حالت میں کھانا کھاتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کھانا اور پانی اللہ کی کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ اس تجربہ سے اس کے اندر اپنے رب کے شکر کا بے پناہ جذبہ پیدا ہوتاہے۔ دوسری طرف یہی ر وزہ آدمی کے لیے تقویٰ کی تربیت بھی ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی دنیا کی زندگی میں خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچے۔ وہ ان چیزوں سے رُکا رہے جن سے خدا نے روکا ہے اور وہی کرے جس کے کرنے کی خدا نے اجازت دی ہے۔ روزہ میں صرف رات کو کھانا اور دن کو کھانا پینا چھوڑ دینا گویا خدا کو اپنے اوپر نگراں بنانے کی مشق ہے۔ مومن کی پوری زندگی ایک قسم کی روزہ دار زندگی ہے۔ رمضان کے مہینے میں وقتی طور پر چند چیزوں کو چھڑا کر آدمی کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ساری عمر ان چیزوں کو چھوڑ دے جو اس کے رب کو ناپسند ہیں — قرآن بندے کے اوپر اللہ کا انعام ہے اور روزہ بندے کی طرف سے اس انعام کا عملی اعتراف۔ روزہ کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو اللہ کی شکر گزاری کے قابل بناتا ہے اور یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق دنیا میں متقیانہ زندگی گزار سکے۔ روزہ سے دلوں کے اندر نرمی اور تواضع (modesty)آتی ہے۔ اس طرح روزہ آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ ان کیفیتوں کو محسوس کرسکے جو اللہ کو اپنے بندوں سے مطلوب ہیں۔ روزہ کی پُرمشقت تربیت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ اللہ کی شکر گزاری میں اس کا سینہ تڑپے اور اللہ کے خوف سے اس کے اندر کپکپی پیدا ہو۔ جب آدمی اس نفسیاتی حالت کو پہنچتا ہے، اسی وقت وہ اس قابل بنتا ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر ایسا شکر اداکرے جس میں اس کے دل کی دھڑکنیں شامل ہوں۔ وہ ایسے تقویٰ کا تجربہ کرے جو اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے کر دے۔ وہ اللہ کو ایسے بڑے کی حیثیت سے پائے جس میں اس کا اپنا وجود بالکل چھوٹا ہوگیا ہو۔