Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّى فَإِنِّى قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا۟ لِى وَلْيُؤْمِنُوا۟ بِى لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ﴾
“AND IF My servants ask thee about Me - behold, I am near; I respond to the call of him who calls, whenever he calls unto Me: let them, then, respond unto Me, and believe in Me, so that they might follow the right way.”
روزہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے صبر کا عمل ہے اور صبر، یعنی حکم الٰہی کی تعمیل میں مشکلات کو برداشت کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے آدمی اس قلبی حالت کو پہنچتا ہے جو اس کو خدا سے قریب کرے اور اس کی زبان سے ایسے کلمات نکلوائے جو قبولیت کو پہنچنے والے ہوں۔ اللہ کو وہی پاتا ہے جو اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرے، اللہ تک اسی شخص کے الفاظ پہنچتے ہیں جس نے اپنی روح کے تاروں کو اللہ سے ملا رکھا ہو۔ شریعت آدمی کے اوپر کوئی غیر فطری پابندی عائد نہیں کرتی۔ روزہ میں دن کے اوقات میں ازدواجی تعلق ممنوع ہونے کے باوجود رات کے اوقات میں اس کی اجازت، افطار وسحر کے اوقات جاننے کے لیے جنتری کا پابند کرنے کے بجائے عام مشاہدہ کو بنیاد قرار دینا اسی قسم کی چیزیں ہیں۔ جزئی تفصیلات میں بندوں کو گنجائش دیتے ہوئے اللہ نے عمومی حدیں واضح فرمادی ہیں۔ آدمی کو چاہيے کہ وہ مقرر حدوں کا پوری طرح پابند رہے اور تفصیلی جزئیات میں اس روش کو اختیار کرے جو تقویٰ کی روح کے مطابق ہے۔ روزہ کے حکم کے فوراً بعد یہ حکم کہ ’’ناجائز مال نہ کھاؤ‘‘ بتاتا ہے کہ روزہ کی حقیقت کیا ہے۔ روزہ کا اصل مقصد آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ جہاں خدا کی طرف سے رکنے کا حکم ہو، وہاں آدمی رک جائے، حتی کہ اگر حکم ہو تو جائزچیز سے بھی، جیسا کہ روزہ میں ہوتا ہے۔ اب جو شخص خدا کے حکم کی بنا پر حلال کمائی تک سے رک جائے وہ اسی خدا کے حکم کی بنا پر حرام کمائی سے کیوں نہ اپنے آپ کو روکے رکھے گا۔ مومن کی زندگی ایک قسم کی روزہ دار زندگی ہے۔ اس کو ساری عمر کچھ چیزوں سے ’’افطار‘‘ کرنا ہے اور کچھ چیزوں سے مستقل طور پر’’روزہ‘‘ رکھ لینا ہے۔ رمضان کا مہینہ اسی کی تربیت ہے۔ پھر روزہ کی محتاط زندگی اور اس کا پُرمشقت عمل یہ سبق دیتاہے کہ اللہ کا عبادت گزار بندہ وہ ہے جو تقویٰ کی سطح پر اللہ کی عبادت کررہا ہو۔ اللہ کو پکارنے والا صرف وہ ہے جو قربانیوں کی سطح پر اللہ کی نزدیکی حاصل کرے۔