Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌۭ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌۭ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَٱلْـَٰٔنَ بَٰشِرُوهُنَّ وَٱبْتَغُوا۟ مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا۟ وَٱشْرَبُوا۟ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلْخَيْطُ ٱلْأَبْيَضُ مِنَ ٱلْخَيْطِ ٱلْأَسْوَدِ مِنَ ٱلْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا۟ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَٰكِفُونَ فِى ٱلْمَسَٰجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ ءَايَٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴾
“IT IS lawful for you to go in unto your wives during the night preceding the [day's] fast: they are as a garment for you, and you are as a garment for them. God is aware that you would have deprived yourselves of this right, and so He has turned unto you in His mercy and removed this hardship from you. Now, then, you may lie with them skin to skin, and avail yourselves of that which God has ordained for you, and eat and drink until you can discern the white streak of dawn against the blackness of night, and then resume fasting until nightfall; but do not lie with them skin to skin when you are about to abide in meditation in houses of worship. These are the bounds set by God: do not, then, offend against them - [for] it is thus that God makes clear His messages unto mankind, so that they might remain conscious of Him.”
روزہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے صبر کا عمل ہے اور صبر، یعنی حکم الٰہی کی تعمیل میں مشکلات کو برداشت کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے آدمی اس قلبی حالت کو پہنچتا ہے جو اس کو خدا سے قریب کرے اور اس کی زبان سے ایسے کلمات نکلوائے جو قبولیت کو پہنچنے والے ہوں۔ اللہ کو وہی پاتا ہے جو اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرے، اللہ تک اسی شخص کے الفاظ پہنچتے ہیں جس نے اپنی روح کے تاروں کو اللہ سے ملا رکھا ہو۔ شریعت آدمی کے اوپر کوئی غیر فطری پابندی عائد نہیں کرتی۔ روزہ میں دن کے اوقات میں ازدواجی تعلق ممنوع ہونے کے باوجود رات کے اوقات میں اس کی اجازت، افطار وسحر کے اوقات جاننے کے لیے جنتری کا پابند کرنے کے بجائے عام مشاہدہ کو بنیاد قرار دینا اسی قسم کی چیزیں ہیں۔ جزئی تفصیلات میں بندوں کو گنجائش دیتے ہوئے اللہ نے عمومی حدیں واضح فرمادی ہیں۔ آدمی کو چاہيے کہ وہ مقرر حدوں کا پوری طرح پابند رہے اور تفصیلی جزئیات میں اس روش کو اختیار کرے جو تقویٰ کی روح کے مطابق ہے۔ روزہ کے حکم کے فوراً بعد یہ حکم کہ ’’ناجائز مال نہ کھاؤ‘‘ بتاتا ہے کہ روزہ کی حقیقت کیا ہے۔ روزہ کا اصل مقصد آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ جہاں خدا کی طرف سے رکنے کا حکم ہو، وہاں آدمی رک جائے، حتی کہ اگر حکم ہو تو جائزچیز سے بھی، جیسا کہ روزہ میں ہوتا ہے۔ اب جو شخص خدا کے حکم کی بنا پر حلال کمائی تک سے رک جائے وہ اسی خدا کے حکم کی بنا پر حرام کمائی سے کیوں نہ اپنے آپ کو روکے رکھے گا۔ مومن کی زندگی ایک قسم کی روزہ دار زندگی ہے۔ اس کو ساری عمر کچھ چیزوں سے ’’افطار‘‘ کرنا ہے اور کچھ چیزوں سے مستقل طور پر’’روزہ‘‘ رکھ لینا ہے۔ رمضان کا مہینہ اسی کی تربیت ہے۔ پھر روزہ کی محتاط زندگی اور اس کا پُرمشقت عمل یہ سبق دیتاہے کہ اللہ کا عبادت گزار بندہ وہ ہے جو تقویٰ کی سطح پر اللہ کی عبادت کررہا ہو۔ اللہ کو پکارنے والا صرف وہ ہے جو قربانیوں کی سطح پر اللہ کی نزدیکی حاصل کرے۔