Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ۞ يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِىَ مَوَٰقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ ٱلْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا۟ ٱلْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ ٱلْبِرَّ مَنِ ٱتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا۟ ٱلْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَٰبِهَا ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾
“THEY WILL ASK thee about the new moons. Say: "They indicate the periods for [various doings of] mankind, including the pilgrimage." However, piety does not consist in your entering houses from the rear, [as it were,] but truly pious is he who is conscious of God. Hence, enter houses through their doors, and remain conscious of God, so that you might attain to a happy state.”
چاند کا گھٹنا بڑھنا تاریخ جاننے کے لیے ہے، نہ کہ توہم پرستوں کے خیال کے مطابق اس ليے كه بڑھتے چاند کے دن مبارک ہیں اور گھٹتے چاند کے دن منحوس۔ یہ آسمان پر ظاہر ہونے والا قدرت كا كيلنڈر ہے تاکہ اس کو دیکھ کر لوگ اپنے معاملات اور اپنی عبادات کا نظام مقرر کریں۔ اسی طرح بہت سے لوگ ظاہری رسوم کو دین داری سمجھ لیتے ہیں۔ قدیم عربوں نے یہ فرض کرلیا تھا کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد اپنے اور آسمان کے درمیان کسی چیز کا حائل ہونا احرام كے آداب کے خلاف ہے۔ اس مفروضہ کی بنا پر وہ ایسا کرتے کہ جب احرام باندھ کر گھر سے باہر آجاتے تو دوبارہ دروازہ کے راستہ سے گھر میں نہ جاتے بلکہ دیوار کے اوپر سے چڑھ کر صحن میں داخل ہوتے۔ مگر اس قسم کے ظاہری آداب کا نام دین داری نہیں۔ دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ سے ڈرے اور زندگی میں اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کو پابندی کرے۔ مومن کو دین کا عامل بننے کے ساتھ دین کا مجاہدبھی بننا ہے۔ یہاں جس جہاد کا ذکر ہے وہ جہاد وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیش آیا۔ عرب کے مشرکین اتمام حجت کے باوجود دعوت رسالت سے انکار کرکے اپنے ليے زندگی کا حق کھو چکے تھے، نیز انھوں نے جارحیت کا آغاز کرکے اپنے خلاف فوجی اقدام کو درست ثابت کردیا تھا۔ اس بنا پر ان کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم ہوا۔ ’’اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نه رہے اور دین اللہ کا ہو جائے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ مذهبي جبر كا خاتمه ہوجائے او ر مذهب كے معاملے ميں انسان كو آزادي حاصل هو جائے۔ اس حکم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے عرب کو توحید کا دائمی مرکز بنا دیا۔ اہلِ ایمان کو جنگ کی اجازت صرف اس وقت ہے جب کہ فریق مخالف کی طرف سے حملہ کا آغاز ہوچکا ہو۔ دوسرے یہ کہ جب اہل ایمان غلبہ پالیں تو اس کے بعد ماضی كے جرائم پر کسی کے لیے کوئی سزا نہیں۔ ہتھیار ڈالتے ہی ماضی کے جرائم معاف کرديے جائیں گے۔ اس کے بعد سزا کا مستحق صرف وہ شخص ہوگا جو آئندہ کسی قابل سزا جرم کا ارتکاب کرے۔ عام حالات میں قتل کا حکم اور ہے اور جنگی حالات میں قتل کا حکم اور۔