Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَأَتِمُّوا۟ ٱلْحَجَّ وَٱلْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ مِنَ ٱلْهَدْىِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا۟ رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ ٱلْهَدْىُ مَحِلَّهُۥ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِۦٓ أَذًۭى مِّن رَّأْسِهِۦ فَفِدْيَةٌۭ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍۢ ۚ فَإِذَآ أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلْعُمْرَةِ إِلَى ٱلْحَجِّ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ مِنَ ٱلْهَدْىِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَٰثَةِ أَيَّامٍۢ فِى ٱلْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌۭ كَامِلَةٌۭ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُۥ حَاضِرِى ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ ﴾
“AND PERFORM the pilgrimage and the pious visit [to Mecca] in honour of God; and if you are held back, give instead whatever offering you can easily afford. And do not shave your heads until the offering has been sacrificed; but he from among you who is ill or suffers from an ailment of the head shall redeem himself by fasting, or alms, or [any other] act of worship. And if you are hale and secure, then he who takes advantage of a pious visit before the [time of] pilgrimage shall give whatever offering he can easily afford; whereas he who cannot afford it shall fast for three days during the pilgrimage and for seven days after your return: that is, ten full [days]. All this relates to him who does not live near the Inviolable House of Worship. And remain conscious of God, and know that God is severe in retribution.”
زمانہ جاہلیت کے عربوںمیں بھی حج کا رواج تھا۔ مگر وہ ان کے لیے گویا ایک قومی رسم یا تجارتی میلہ تھا، نہ کہ اللہ واحد کی عبادت۔ مگر حج وعمرہ ہو یا اور کوئی عبادت، ان کی اصل قیمت اسی وقت ہے جب کہ وہ خالصۃً اللہ کے لیے ادا کی جائیں۔ جو شخص اپنی روزانہ زندگی میں اللہ کا پرستار بنا ہوا ہو، جب وہ اللہ کی عبادت کے لیے اٹھتاہے تو اس کی ساری نفسیات سمٹ کر اسی کے اوپر لگ جاتی ہیں۔ وہ ایک ایسی عبادت کا تجربہ کرتا ہے جو ظاہری طور پر دیکھنے میںتو آداب ومناسک کا ایک مجموعہ ہوتی ہے، مگر اپنی اندرونی روح کے اعتبار سے وہ ایک ایسی ہستی کا اپنے آپ کو اللہ کے آگے ڈال دینا ہوتاہے جو اللہ سے ڈرتاہو اور آخرت کی پکڑ کا اندیشہ جس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہو۔ مومن وہ ہے جو شہوت کے لیے جینے کے بجائے مقصد کے لیے جینے لگے۔ وہ اپنے معاملات میں خدا کی نافرمانی سے بچنے والا ہو اور اجتماعی زندگی میں آپس کی لڑائی جھگڑے سے بچا رہے۔ حج کا سفر ان اخلاقی اوصاف کی تربیت کے لیے بہت موزوں ہے، اس ليے اس میں خصوصی طورپر ان کی تاکید کی گئی۔ اسی طرح حج میں سفر کا پہلو لوگوں کو سامان سفر کے اہتمام میں لگا دیتاہے۔ مگر اللہ کے مسافر کی سب سے بڑی زاد راہ تقویٰ ہے۔ ایک شخص سامان سفر کے پورے اہتمام کے ساتھ نکلے، دوسرا شخص اعتماد علی اللہ کا سرمایہ لے کر نکلے تو دوران سفر دونوں کی نفسیات یکساں نہیں ہوسکتیں۔ ’’اے عقل والو میرا تقویٰ اختیار کرو‘‘ سے معلوم ہوا کہ تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق عقل سے ہے۔ تقویٰ کسی ظاہری ہیئت کا نام نہیں، یہ عقل یا شعور کی ایک حالت ہے۔ انسان جب شعور کی سطح پر اپنے رب کو پالیتا ہے تو اس کا ذہن اس کے بعد خدا کے جلال وجمال سے بھر جاتاہے۔ اس وقت روح کی لطیف سطح پر جو کیفیات پیدا ہوتی ہیں انھیں کا نام تقویٰ ہے۔