slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 197 من سورة سُورَةُ البَقَرَةِ

Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ ٱلْحَجُّ أَشْهُرٌۭ مَّعْلُومَٰتٌۭ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ ٱلْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِى ٱلْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا۟ مِنْ خَيْرٍۢ يَعْلَمْهُ ٱللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا۟ فَإِنَّ خَيْرَ ٱلزَّادِ ٱلتَّقْوَىٰ ۚ وَٱتَّقُونِ يَٰٓأُو۟لِى ٱلْأَلْبَٰبِ ﴾

“The pilgrimage shall take place in the months appointed for it. And whoever undertakes the pilgrimage in those [months] shall, while on pilgrimage, abstain from lewd speech, from all wicked conduct, and from quarrelling; and whatever good you may do, God is aware of it. And make provision for yourselves - but, verily, the best of all provisions is God-consciousness: remain, then, conscious of Me, O you who are endowed with insight!”

📝 التفسير:

زمانہ جاہلیت کے عربوںمیں بھی حج کا رواج تھا۔ مگر وہ ان کے لیے گویا ایک قومی رسم یا تجارتی میلہ تھا، نہ کہ اللہ واحد کی عبادت۔ مگر حج وعمرہ ہو یا اور کوئی عبادت، ان کی اصل قیمت اسی وقت ہے جب کہ وہ خالصۃً اللہ کے لیے ادا کی جائیں۔ جو شخص اپنی روزانہ زندگی میں اللہ کا پرستار بنا ہوا ہو، جب وہ اللہ کی عبادت کے لیے اٹھتاہے تو اس کی ساری نفسیات سمٹ کر اسی کے اوپر لگ جاتی ہیں۔ وہ ایک ایسی عبادت کا تجربہ کرتا ہے جو ظاہری طور پر دیکھنے میںتو آداب ومناسک کا ایک مجموعہ ہوتی ہے، مگر اپنی اندرونی روح کے اعتبار سے وہ ایک ایسی ہستی کا اپنے آپ کو اللہ کے آگے ڈال دینا ہوتاہے جو اللہ سے ڈرتاہو اور آخرت کی پکڑ کا اندیشہ جس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہو۔ مومن وہ ہے جو شہوت کے لیے جینے کے بجائے مقصد کے لیے جینے لگے۔ وہ اپنے معاملات میں خدا کی نافرمانی سے بچنے والا ہو اور اجتماعی زندگی میں آپس کی لڑائی جھگڑے سے بچا رہے۔ حج کا سفر ان اخلاقی اوصاف کی تربیت کے لیے بہت موزوں ہے، اس ليے اس میں خصوصی طورپر ان کی تاکید کی گئی۔ اسی طرح حج میں سفر کا پہلو لوگوں کو سامان سفر کے اہتمام میں لگا دیتاہے۔ مگر اللہ کے مسافر کی سب سے بڑی زاد راہ تقویٰ ہے۔ ایک شخص سامان سفر کے پورے اہتمام کے ساتھ نکلے، دوسرا شخص اعتماد علی اللہ کا سرمایہ لے کر نکلے تو دوران سفر دونوں کی نفسیات یکساں نہیں ہوسکتیں۔ ’’اے عقل والو میرا تقویٰ اختیار کرو‘‘ سے معلوم ہوا کہ تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق عقل سے ہے۔ تقویٰ کسی ظاہری ہیئت کا نام نہیں، یہ عقل یا شعور کی ایک حالت ہے۔ انسان جب شعور کی سطح پر اپنے رب کو پالیتا ہے تو اس کا ذہن اس کے بعد خدا کے جلال وجمال سے بھر جاتاہے۔ اس وقت روح کی لطیف سطح پر جو کیفیات پیدا ہوتی ہیں انھیں کا نام تقویٰ ہے۔